بینظیر بھٹو کا قتل
27 دسمبر 2007ء کی شام کو میں امریکی سفارت خانہ میں میڈیا کے لئے منعقد کی گئی ایک بریفنگ میں موجود تھا۔ یہ بریفنگ پاک امریکہ تعلقات اور افغانستان کی صورتحال کے بارے میں تھی۔ اس بریفنگ کے دوران وہاں موجود ہمارے دوست مشتاق صدیقی جو امریکی سفارتخانہ کے اس وقت میڈیا ایڈوائزر تھے کے موبائل فون پر ایک میسج آیا۔ یہ میسج دیکھ کر وہ پریشان ہو گئے۔ اس دوران میڈیا کے شعبہ کے ایک اور امریکی سفارتکار کے فون کی گھنٹی بجی اس سفارتکار نے فون سنا تو اس کے چہرے پر بھی پریشانی کے آثار تھے۔ میں نے اپنے دوست مشتاق صدیقی سے پوچھا کہ خیریت ہے ‘ تو انہوںنے بتایا کہ لیاقت باغ راولپنڈی میں جہاں بینظیر بھٹو ایک جلسہ عام سے خطاب کر رہی تھیں۔ شاید کوئی دھماکہ ہوا ہے۔ بینظیر بھٹو 27 دسمبر کی سہ پہر کو لیاقت باغ میں جلسہ عام سے خطاب کر ہی تھیں۔ اس جلسہ میں بڑی تعداد میں لوگ تھے۔ اس سے قبل بینظیر بھٹو جو ایک طویل عرصہ بیرون ملک قیام کرنے کے بعد واپس پاکستان آئی تھیں عوامی رابطہ مہم چلا رہی تھیں۔ راولپنڈی کے لیاقت باغ کا جلسہ ان کی اس مہم کا شاید آخری جلسہ تھا۔ اس سے پہلے وہ پشاور میں ایک کامیاب جلسہ کر چکی تھیں۔
مشرف انتظامیہ کی طرف سے انہیں یہ وارننگ بھی دی جا رہی تھی کہ ان کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔ یہ وہ دور تھا جس میں امریکہ نے نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملہ کر دیا تھا۔ امریکہ اور نیٹو کی فوجیں افغانستان میں القاعدہ اور ان کے ساتھیوں کیخلاف ایک فوجی آپریشن کررہی تھیں۔ اس آپریشن کے نتیجے میں بڑی تعداد میں القاعدہ اور ان کے حامی طالبان فاٹا کے علاقہ میں پناہ لے چکے تھے۔ تحریک طالبان پاکستان وجود میں آ چکی تھی۔ پاکستان چونکہ امریکہ کا دہشت گردی کیخلاف جنگ میں اتحادی تھا اس لئے امریکہ کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے جوابی کارروائیوں کا سامنا تھا۔ پاکستان میں خود کش دھماکے ہو رہے تھے۔ ان دھماکوں میں فوج اور پولیس کے اہلکاروں کے علاوہ عام شہریوں کو بھی ہدف بنایا جا رہا تھا۔ جولائی 2007 ء میں لال مسجد اسلام آباد میں آپریشن ہوا تھا جس میں بڑی تعداد میں طلبہ جاں بحق ہوئے تھے۔ اس آپریشن کے بعد پاکستان میں خود کش حملوں کی ایک شدید لہر شروع ہو گئی تھی۔ لال مسجد کے خلاف آپریشن کے BACKLASH کے نتیجہ میں پاکستان کے چاروں صوبوں خصوصاً خیبر پختونخوا میں خودکش حملے اور دھماکے ایک معمول بن گئے تھے۔ بے نظیر بھٹو نے اس پس منظر میں لیاقت باغ میں جلسہ عام منعقد کیا تھا۔ انتظامیہ اور سیکورٹی فورسز انہیں مسلسل متنبہ کر رہی تھیں کہ وہ عوامی جلسوں سے اجتناب کریں اس سے پہلے جب وہ اکتوبر 2007 ء میں کراچی پہنچیں تھیں تو وہاں بھی ایک خوفناک دھماکہ ہوا تھا جس میں درجنوں افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔
بات شروع ہوئی تھی امریکی سفارت خانہ میں ہونے والی بریفنگ سے لیاقت باغ میں دھماکہ ہونے کا میسج جب امریکی سفارت کاروں کو ملا تو بریفنگ ختم ہو گئی۔ میں سفارت خانہ سے نکل کر زیروپوائنٹ میں اپنے دفتر پہنچا۔ راستے میں میں نے نیشن کے کرائم رپورٹر مرحوم اسد حمید راجہ کو فون کیا کہ کیا صورتحال ہے تو اس نے بتایا کہ بے نظیر بھٹو پر لیاقت باغ کے قریب خودکش حملہ ہوا ہے انہیں راولپنڈی میں بے نظیر ہسپتال پہنچایا گیا جہاں ڈاکٹروں کی رپورٹ کے مطابق ان کی موت واقع ہو چکی ہے۔ اسد حمید راجہ سے جب میری بات ختم ہوئی تو اس کے فوراً بعد جناب مجید نظامی کا فون آیا کہ لیاقت باغ میں کیا ہوا تو میں نے انہیں تفصیل سے آگاہ کیا اور بتایا کہ ڈاکٹروں کے مطابق بے نظیر بھٹو کی موت واقع ہو چکی ہے۔ نظامی صاحب نے قدرے پریشانی اور حیرت سے دوبارہ استفسار کیا کہ کیا بے نظیر کی ڈیتھ ہو چکی ہے میں نے جواباً عرض کیا کہ میری اطلاع یہی ہے۔ اس کے بعد پورا ملک ایک سوگ میں ڈوب گیا۔ بے نظیر بھٹو جس نے اپنے باپ کی پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی کو نہ صرف زندہ رکھا تھا بلکہ دو مرتبہ ملک کی وزیراعظم منتخب ہو چکی تھیں‘ دنیا سے رخصت ہو گئی تھیں۔ بے نظیر بھٹو اپنے باپ ذوالفقار علی بھٹو‘ دو بھائیوں شاہنواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کی طرح جوانی میں ہی دنیا سے رخصت ہو گئی تھیں بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات بھی ہوتی رہیں اقوام محدہ کی ٹیم اور برطانیہ کی شہرہ آفاق پولیس سکاٹ لینڈ یارڈ نے بھی ان کے قتل کی تحقیقات کیں۔ مرحومہ کے قتل کا مقدمہ بھی چلا دو پولیس افسران کو سزا بھی ہوئی لیکن پیپلز پارٹی کے کارکن اور عام پاکستانی اس تحقیقات اور اس کے نتائج سے مطمئن نظر نہیں آئے۔ بے نظیر کے بعد اس کے شوہر آصف علی زرداری نے پانچ سال تک ملک میں حکومت بھی کی لیکن بے نظیر کے قتل کے اصل قاتلوں اور قتل کے محرکات پر ابھی تک ایک پردہ ہی پڑا ہوا ہے۔