• news

شریف میڈیکل کالج کے چیئرمین نواز شریف خود کیوں پیش نہیں ہوئے، ہر صورت قوم کی حالت بدلنی ہے: چیف جسٹس

لاہور (وقائع نگار خصوصی) سپریم کورٹ کے رو برو نجی میڈیکل کالجزاز خود نوٹس کیس میں خاتون وکیل کو سفارشی فون کرنے پر گورنر پنجاب کے بیٹے آصف رجوانہ عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے معطل وائس چانسلر ڈاکٹر فرید ظفر کی جانب سے عدالت سے غیر مشروط معافی کی استدعامنظور کرتے ہوئے توہین عدالت کے شوکاز نوٹس واپس لے لئے۔ گورنر پنجاب کے بیٹے آصف رجوانہ نے تسلیم کیا کہ میں معذرت کرتا ہوں میں نے خاتون کو فون کیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فون کر کے کیا کہنا چاہتے تھے۔عدالتی معاملہ میں مداخلت کرنے کی جرآت کیسے کی۔ بار کونسل نے ابھی تک تمہارا لائسنس کیوں معطل نہیں کیا۔ بنچ کے رکن جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ اس خاتون کو عدالتی کاروائی میں شریک ہونے سے روکنا چاہتے تھے؟عدالت نے آصف رجوانہ کی زبانی معافی کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اپنا معافی نامہ لکھ کر لائیں پھر دیکھیں گے۔شریف میڈیکل سٹی کے پرنسپل ریٹائرڈ بریگیڈئر ظفر احمدپیش ہو ئے۔عدالت نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ میں نے مالک کو بلایا تھا وہ کیوں نہیں آئے۔ بتائیں شریف میڈیکل کالج کامالک کون ہے۔پرنسپل شریف میڈیکل سٹی نے بتایا کہ یہ کالج ٹرسٹ ہے اس کا کوئی مالک نہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شریف میڈیکل کالج کے بورڈ آف ٹرسٹی کا چیئرمین کون ہے۔ پرنسپل نے بتایا کہ بورڈ آف ٹرسٹی کے چیئرمین میاں نوازشریف ہیں۔ عدالت نے کہا کہ تو وہ خود کیوں پیش نہیں ہوئے انہیں خود عدالت میں پیش ہونا چاہئے تھا۔ عدالتی استفسار پر پرنسپل شریف میڈیکل کالج نے بتایا کہ انہوں نے نئے داخل ہونے والے طلبہ سے سالانہ آٹھ لاکھ پچھتر ہزار فیس وصول کی۔عدالت نے کہا کہ آگاہ کریں کہ اضافی پیسے کس حیثیت میں وصول کئے گئے۔عدالت نے شریف میڈیکل کالج اور دو مزید نجی میڈیکل کالجز کے اکاؤنٹس کی تفصیلات، کتنے داخلے کئے سب تفصیلات پرفارمے پر بیان حلفی کی صورت جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ پیسے کو ذہین طلبہ کے راستے کی رکاوٹ نہیں بننے دیں گے۔عدالت نے چیف سیکرٹری سے استفسار کیا کہ غریب اور ذہین طلباء کو کس طرح میڈیکل کی تعلیم کیلئے ایڈجسٹ کیا جا سکتا۔عدالت کو بتایا گیا حکومت کے پاس فنڈز ہیں۔عدالت نے قرار دیا کہ اس سلسلے میں مخیر حضرات بھی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ایک شہری نے عدالت کو روتے ہوئے بتایا کہ چیف جسٹس صاحب میری بیٹی کو میرٹ پر پورا اترنے کے باوجود بھی داخلہ نہیں ملا۔عدالت نے استفسار کیا کہ کیا قانون میں ایسی کوئی گنجائش نہیں کہ ذہین غریب طلبہ کی مالی مدد کی جائے۔عدالت نے حمید لطیف ہسپتال کی تعمیرات کی رپورٹ طلب کر لی۔ عدالت نے ڈی جی ایل ڈی اے کو عدالتی حکم پر دس یوم میں عمل کرنے کا حکم دیا۔عدالت نے ریمارکس دئیے کہ جتنے غیر قانونی شادی ہال اور مارکیٹس ہیں انہیں بند کر دیں۔ہر چوک کی نکر پر ایسے پلازے بنائے جا رہے ہیں جن میں پارکنگ ہی موجود نہیں۔آپ غیر قانونی عمارتوں کی تفصیلات دیں ہم انہیں گرانے کا تحریری حکم دیں گے۔ ماتحت عدالتوں کو پابند بنائیں گے کہ وہ حکم امتناعی جاری نہ کریں۔عدالت نے مزید سماعت تیس دسمبر تک ملتوی کر دی۔سپریم کورٹ نے ناقص دودھ کی فروخت کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے ٹی وائٹنرکو دودھ کے نام پرفروخت کرنے والی کمپنیوں کی تفصیلات اور متعلقہ کمپنیوں سے جواب طلب کر لیا۔ عدالت نے کہا کہ بڑی فوڈ چین کو استعمال شدہ گھی کسی صورت فروخت نہیں کرنے دیں گے۔ ڈی جی فوڈ نورالامین مینگل نے عدالت کو بتایا کہ اگست میں کھلے اور ڈبہ بند دودھ کے نمونے لے کر ٹیسٹ کرائے ہیں۔ فوڈ سیفٹی کے ساتھ دودھ سیفٹی کی ٹیمیں تشکیل دے رہے ہیں۔دودھ سیفٹی کی ٹیمیں روزانہ کی بنیاد پر نمونوں کا جائزہ لیں گی۔ کھلے دودھ کی فروخت پر پابندی کے لئے پاسچرائزیشن کا قانون منظور ہو چکا ہے پاسچرائزیشن کے بغیرناقص دودھ کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا بھینسوں کو لگائے جانے والے ٹیکوں پر پنجاب میں پابندی عائد کی گئی ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھینسوں کو لگانے والے ممنوعہ ٹیکوں کی فروخت پر پابندی عائد کی ہے۔ انہیں بنانے والی کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کئے مگر وہ حکم امتناعی لے آئیں۔پوڈر دودھ کی فروخت کو صحت کے لئے مضر ہونے کی بناء پر پابندی لگا دی ہے۔پانچ لیبارٹریاں موجود ہیں مزید لیب کے لئے سولہ کروڑ روپے وصول ہو چکے ہیں۔ کھلے دودھ کی فروخت میں بہت سے مسائل ہو رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ناقص دودھ پینے سے ہمارے بچے متاثر ہو رہے ہیں جس پر عدالت کو سخت تشویش ہے۔ تجاویز لینے کے بعد دودھ کی کثافتیں دور کرنے کے لئے حکم دیا جائے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایسی رپورٹس پر انحصار نہیں کیا جائے گا جس سے معاشرے میں سراسیمگی پھیلے۔ جو معیاری دودھ بیچ رہے ہیں عدالت ان کا نام بدنام کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔عدالت کا مقصد کسی کے کاروبار کو ختم کرنا نہیں۔سیفٹی ٹیموں کی مانیٹرنگ ضروری ہے۔ مرغیوں کو جو انجکشن اور سٹیرائڈز لگائے جاتے ہیں ان کے اثرات ہمارے جسم پر آ رہے ہیں۔ چکن کھانے سے بچیوں کے ہارمونز میں تبدیلی کی شکائت عام ہو چکی ہے۔ شہریوں میں قوت مدافعت جیسی بیماریاں آ گئی ہیں۔عدالت نے انجکشن فروخت کرنے پرآئی سی آئی اور غازی برادرز کو نوٹس جاری کر دئیے۔بتایا جائے آر بی ایس ٹی انجکشن کی فروخت کیسے ہورہی ہے۔ عدالت نے انجکشن کی فروخت میں ملوث کمپنی کو حکم امتناعی دینے والے مقدمے کا ریکارڈ طلب کر لیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ بچوں کو ڈبے کے دودھ پر لگا دیا گیا ہے حالانکہ یہ دودھ نہیں ہے۔عدالت نے کمپنی کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایوری ڈے دودھ نہیں تو ڈبے پر دودھ کیوں لکھا گیا۔دودھ لکھنے پر کیوں نہ آپ کی کمپنی کو بند کر دیا جائے۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ قوم کو دھوکے میں رکھ کر کیمیکل کو دودھ بتا کر نہیں بیچنے دیں گے۔ڈبے پر واضح اور بڑے حروف میں لکھیں کہ یہ دودھ نہیں کسی دھوکے میں مت آئیں۔ ڈی جی فوڈ نے کہا کہ اس حوالے سے آگہی مہم چلائی جارہی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ چھوڑیں آگہی مہم کو میں خود متاثرہ ہوں۔ میں خود آج تک سوکھے دودھ کو دودھ سمجھ کر پیتا رہا ہوں۔فاضل عدالت نے سوکھے دودھ فروخت کرنے والی کمپنیوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔عدالت نے قرار دیا کہ ہم پیمراء کو کہیں گے کہ اس حوالے سے اشتہاری مہم چلائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ استعمال شدہ گھی ڈیزل بن چکا ہے جو انسانی جان کے لئے انتہائی مضر ہے۔استعمال شدہ گھی کو بعد میں پکوڑے اور حلوہ پوڑی بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت چھ جنوری تک ملتوی کر دی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے پنجاب حکومت کو اپنی ترجیحات تبدیل کرنا ہونگی، اب ہرحال میں قوم کی حالت بدلنی ہے۔ ناقص پانی از خود نوٹس کیس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ منرل واٹر کے نام پر ناقص پانی فروخت کرنے والی کمپنیاں بند کر دینی چاہئیں۔اورنج ٹرین کا ایک ڈبہ کم کر کے پہلے حکومت پنجاب کو اپنی ترجیحات طے کرنی چاہئیں۔زندہ رہنے کے لئے صاف پانی اور ہوا ضروری ہے مگر شہریوں کو وہی دستیاب نہیں۔عدالت نے چیمبر اورلاہور کے مختلف علاقوں سے پانی کے نمونے حاصل کر کے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔عدالتی معاون نے بتایا کہ بوتلوں میں کمرشل بنیادوں پر پانی بیچنے والوں کے فلٹریشن پلانٹس معیار کے مطابق نہیں۔فلٹریشن پلانٹس کے فلٹر بروقت تبدیل نہیں ہوتے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایم ڈی واسا بتائیں کہ زیر زمین ذخیرے سے پانی کیوں فراہم نہیں کیا جا رہا۔لاہور میں کتنے ٹیوب ویل ہیں۔ایم ڈی واسا نے عدالت کو بتایا کہ پانچ سو پچھتر ٹیوب ویل موجود ہیں۔ عدالت نے پوچھا کہ کیا ان سے پانی کے نمونوں کا ٹیسٹ کرایا گیا۔کیا پانی میں آرسینک موجود ہے اور یہ پانی پینے کے قابل ہے؟چیف جسٹس عدالت نے ایم ڈی واسا کو بیان حلفی جمع کرانے کی ہدائت کی اور قرار دیا کہ عدالت آپ کی رپورٹس کا موازنہ کرائے گی۔ آپ پانی کے نمونوں کے ٹیسٹ کرائیں پھر ہم اپنے ذرائع سے پانی کے نمونوں کے ٹیسٹ کرائیں گے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ایک سو چھیتر پلانٹس غیر معیاری ہیں۔ ایک سو پنتالیس پلانٹس بند کردئیے ہیں۔ چھیاسٹھ نے اپنے معیار کو بہتر بنایا۔ جن کا دوبارہ نمونہ حاصل کیا گیا ہے۔ بائیس کمپنیاں کاروبار بندچکی ہیں۔ان اعدادوشمار کو سن کر عدالت نے قرار دیا کہ اس سے بہتر تو ہے نلکے کا پانی پی لیا جائے۔ چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری پنجاب سے استفسار کیا کہ یہ بات درست ہے کہ ہسپتالوں، صنعتوں اور محلوں کا پانی نہروں اور دریائوں میں پھینکا جا رہا ہے۔کیا یہ بات بھی درست ہے کہ گائوں میں رہنے والے افراد نہروں سے پانی پیتے ہیں۔چیف سیکرٹری نے تسلیم کیا کہ یہ بات درست ہے کہ یہ پانی فلٹر کئے بغیر دریائے راوی میں بہایا جا رہا ہے۔عدالت نے کہا کہ لاہور ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے پہلے نمبروں پر آ گیا۔عدالت کو چکر دینے کی کوشش نہ کریں۔یہ بتائیں کہ کتنا آلودہ پانی راوی میں گرایا جا رہا ہے۔ ایم ڈی واسا نے اعتراف کیا کہ اس وقت میونسپل ویسٹ کا کوئی واٹر فلٹریشن پلانٹ موجود نہیں۔چیف سیکرٹری نے اعتراف کیا کہ لاہور کا آلودہ پانی راوی میں جا رہا ہے۔چھ واٹر فلٹریشن پلانٹس ڈیڑھ برس کے عرصے میں لگا دئیے جائیں گے۔عدالت نے کہا کہ چیف سیکرٹری صاحب اگر پرانے قوانین موجودہ تقاضوں کے مطابق نہیں تو انہیں تبدیل کریں۔عدالت نے چیف سیکرٹری سے صاف پانی کمپنی کی تفصیلات طلب کر لیں۔چیف جسٹس نے ایم ڈی واسا کو تمام ٹیوب ویلوں کے نمونوں کی رپورٹ، صاف پانی کی فراہمی اور واسا کے اقدامات کے حوالے سے عدالت میں بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔لاہور شہر کے مختلف علاقوں سے پانی کے نمونے لینے کی ہدائت کرتے ہوئے ایک ماہ میں پی سی ایس آئی آر لیبارٹری سے رپورٹ طلب کر لی۔چیف جسٹس نے کہا کہ بوتلوں میں پانی بھر کے مہنگے داموں بیچا جا رہا ہے۔جس گھر کا بجٹ پچاس روپے ہے وہ پچاس روپے کی پانی کی بوتل کیسے خرید سکتا ہے۔چیف جسٹس نے ڈی جی فوڈ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ لوگ ہیپاٹائٹس کا شکار ہو رہے ہیں مگر آپ کوپانی بیچنے والی کمپنیوں کے سرمائے کو بچانے کی فکر ہے۔چیف جسٹس نے سیکرٹری صحت پنجاب پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ کباڑخانوں کا دورہ کر کے بتائیں کہ وہاں ہسپتالوں کے فضلے کی چیزیں کیسے موجود ہیں۔ہسپتالوں کے فضلہ کو ٹھکانے لگانیوالے ٹھیکیداروں کی انسپکشن کیوں نہیں کرائی جا رہی۔عدالت نے قرار دیا کہ ہسپتالوں کے فضلے کو ٹھکانے لگانا مسلہ بن گیا ہے۔سیکرٹری صحت نے بتایا کہ بائیس ٹن سرکاری ہسپتالوں کا فضلہ ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ سیکرٹری صحت اگر ہسپتال کے فضلہ کو ٹھکانے لگانے کی انسپکشن نہیں تو اس کا کیا مطلب لیا جائے۔ نجی ہسپتالوں کے فضلے کو ٹھکانے لگانے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ سموگ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ بھٹوں اور دھوئیں والی فیکڑیوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جا رہی۔چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اور تمام سیکرٹریز میرے نمبر لیں اگر کہیں رکاوٹ آئے تو براہ راست رابطہ کر کے رہنمائی لیں۔دوران سماعت عدالت نے انگریزی میں بات کرنے پر سیکرٹری انڈسٹری کو جھاڑ پلا دی۔عدالت نے چیف سیکرٹری سے صاف پانی کمپنی کو فراہم کئے جانے والے بجٹ اور دیگر تفصیلات طلب کر لیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ میں کسی بھی معاملے میں سیاسی قیادت کو ذمہ دار نہیں بنائوں گا۔میرے لئے آپ ہی سب معاملات کے ذمہ دار ہوں گے ۔

ای پیپر-دی نیشن