مرحوم کی آخری وصیت اور آصف علی زرداری
میں نے فرحت اللہ بابر کو تین چار فون کیے۔ ایک دن نوائے وقت ہائوس سے نکل کر ساتھ والی بلڈنگ جو مساوات کی ہے وہاں جاکر ملاقات کی اور تھک کر بیٹھ گئی۔ مجھے فرحت اللہ سے کوئی ذاتی کام نہیں تھا۔ میں نے مرنے والے ایک جیالے کی وصیت کے مطابق کوئی چیز آصف علی زرداری یا بلاول کو سونپنا تھی اور ظاہر ہے کہ مرنے والے کی چھوڑی ہوئی یہ چیز کوئی قیمتی جائیداد یا ورثہ نہیں تھی مگر یہ کتنی قیمتی تھی اس کا اندازہ مرحوم کی فیملی یا پھر نصرت بھٹو جانتی تھیں۔ میں نے عظیم اور باوقار خاتون نصرت بھٹو کا نام اس لئے لیا کہ وہ مرنے والے کو بیٹا کہہ کر بلایا کرتی تھیں۔ قصہ یوں ہے کہ یہ تو سچ ہے کہ پیپلزپارٹی شاعروں، ادیبوںکی اہمیت کو جانتی تھی اور کسی سیاسی پارٹی کی قربتوں کا اعزاز اگر شاعروں‘ ادیبوں کو ملا تو بھی یہی پارٹی تھی مگر یہ بات کافی حد تک بیگم نصرت بھٹو کے بعد ختم ہوتی چلی گئی اور کس طرح مفاد پرستوں کے ٹولوں کو ہی رسائی ملتی رہی یہ باتیں آگے چل کر معلوم ہو جائیں گی۔ جب ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی دی گئی اور ضیاء الحق کے سیاہ زمانے کا آغاز ہوا تو کوڑوں کی سزائیں‘ جیلیں اور مار پیٹ کا سلسلہ ہی جاری رہا۔ انہی دنوں لاہور میں ایک گروپ نے ایک کیسٹ نکالنے کا سوچا اور اس کیسٹ کے گیتوں کے لئے احمد فراز‘ حبیب جالب اور دیگر شعراء کا احتجاجی اور مزاحمتی کلام اٹھایا گیا مگر اس کلام کو ضیاء الحق کے دور میں آواز کی جرأت کون دیتا؟ اور اس جرأت کے لئے جو شخص آگے آیا وہ ایسا پڑھا لکھا نوجوان گلوکار تھا جس نے مقبولیت کی سیڑھیاں ابھی طے کرنا شروع کی تھیں مگر جس کی شخصیت کے وقار اور آواز کی گھمبیرتا نے اپنی جگہ بنالی تھی۔ کیسٹ کی ریکارڈنگ کا آغاز نسرین انجم بھٹی کے گھر ہوا۔ ایک چارپائی رکھی گئی اور اس کے اردگرد چادریں تان کر ایک ایسا سٹوڈیو بنایا گیا کہ جہاں شور نہ ہو اور چھپ چھپا کر کیسٹ ریکارڈ کرلی جائے۔ جس گلوکار نے رات کے اندھیروں میں وہ کلام ریکارڈ کروایا وہ پیپلزپارٹی کا جیالا اور نصرت بھٹو کا بیٹا مسعود ملک تھا۔ مسعود ملک بینظیربھٹو کے دور میں امریکہ چلا گیا‘ پڑھا لکھا خودار انسان تھا لیکن چالاکیاں نہیں جانتا تھا۔
اس کیسٹ کے بعد نسرین انجم بھٹی کی قیادت میں ایک قافلہ گڑھی خدابخش لاڑکانہ گیا‘ بینظیربھٹو سے ملاقاتیں ہوئیں۔ قمر زمان کائرہ کی وساطت سے نسرین انجم بھٹی ریڈیو پاکستان لاہور اور اسلام آباد سنٹر میں عہدوں پر رہیں۔ ستار سید نے بھی ریڈیو میں خدمات سرانجام دیں۔ پیپلزپارٹی کے ان جیالوں کو ان کی خدمات کے عوض پلاٹ بھی دیئے گئے مگر ان میں محروم رہ جانے والے چند خودار شامل تھے۔ مسعود ملک امریکہ چلا گیا تھا‘ ابھی اس کے خاندان کے افراد جانے کی تیاریوں میں تھے کہ ایک دن اطلاع ملی کہ وہ جہان فانی سے پردیس میں رخصت ہوگیا ہے۔ چار پانچ ماہ بعد اس کا سامان موصول ہوا تو ہمیں وہ کیسٹ بھی ملی جو ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کے بعد لاہور میں ایک چارپائی پر چادریں ڈال کر بنائے جانے والے سٹوڈیو میں ریکارڈ ہوئی تھی اور جس کو آواز کی جرأت دینے والا اس وقت مسعود ملک کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ مسعود کی وصیت میں یہ بات شامل تھی کہ وہ کیسٹ آصف علی زرداری یا بلاول تک پہنچائی جائے۔ مسعود ملک کے ذہن میں نہ جانے کیا تھا مگر یہ بات سچ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کو مفاد پرست ٹولے کے علاوہ مخلص کارکنوں اور ان کے خاندانوں کا خیال ہونا چاہیے اور پرانے کارکنوں کی خدمات کا ذکر نئی قیادت تک جانا چاہیے یا نئی قیادت کو ذرا پیچھے مڑ کر پارٹی کے مخلص لوگوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہئیں۔ یہ بات بھی بھٹو کی پھانسی کے فوراً بعد کی ہے جب مسعود ملک لاڑکانہ گیا اور اسے جگہ کم پڑ جانے کے باعث ستار سید کے ساتھ ذوالفقارعلی بھٹو کے کمرے میں رات بسر کرنے کا موقع ملا تھا۔ مسعود ملک وہاں جاکر بیمار ہوگیا تو نصرت بھٹو نے ذاتی طور پر خیال رکھا حالانکہ وہ خود دکھوں کی چادر میں لپٹی ہوئی تھیں مگر دور دور سے آنے والے مخلص کارکنوں کا خیال کرتی تھیں۔ مسعود ملک کو بعد میں ’’اواری‘‘ میں نصرت بھٹو کے ہاتھوں ’’جمہوریت ایوارڈ‘‘ ملا۔ اس کی بیگم نصرت بھٹو کے ساتھ بڑی خوبصورت تصویر تھی۔ امریکہ جاتے ہوئے وہ ایوارڈ اور تصویر اپنے ساتھ لے کر گیا تھا اور کچھ عرصہ کے بعد محترمہ بینظیربھٹو کی برسی کے موقع پر بلاول اور آصف علی زرداری جیالوں کے ساتھ موجود تھے جبکہ اعتزاز احسن اور فرحت اللہ بابر کا وہاں ہونا بھی لازم تھا۔ محترمہ کی برسی کے موقع پر یہ احساس ہوا کہ مرحوم کی وصیت پوری کرنے کیلئے یہ سب تحریر کیا جائے اور سیاسی پارٹیوں کے قائدین کو یہاں یاد دلایا جائے کہ پرانے اور مخلص کارکنوں کے ساتھ ان کی وابستگی اس لئے ضروری ہے کہ کسی قیمتی جائیداد یا انڈسٹری کی طرح یہ ورثہ بھی قیمتی ہوا کرتا ہے۔
محترم نوازشریف لندن میں تھے اور پرویز مشرف کا زمانہ تھا جب میں نے ان سے لندن میں بات کی اور کہا کہ ہم جمہوریت کیلئے آپ کے ساتھ ہیں۔ مشرف کی ہمسائیگی میں رہ کر ہم نے آمریت اور مشرف کے غلط اقدامات پر لکھا۔ لندن سے نوازشریف نے یہ شعر سنایا تھا کہ:
؎بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھائوں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
دراصل غریب الوطنی سے نکل کر واپسی میں اپنی ذات کے سفر کو درست سمتوں پر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ آج مسلم لیگ(ن) اور س کے لیڈروں اور حکمرانوں کو اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔ وقت تو بدلتا رہتا ہے مگر سیاسی پارٹیوں کے لئے ان کے کارکنان کی اہمیت وہی کی وہی رہتی ہے۔ محترمہ بینظیربھٹو کی برسی پر جو نظم میں نے ان کے لئے لکھی وہ پیش خدمت ہے:
؎ربط جس کو اس وطن کے ہر گلی کوچے سے تھا
دور ہوکر اس وطن سے وہ تو جی سکتی نہ تھی
دیکھتی آنکھوں سے کب تک دیکھتی وہ خشت وسنگ
اوڑھ کر بھی دکھ کی چادر ہونٹ سی سکتی نہ تھی
ثبت ہے ہر ایک لب پر آج لیکن اک سوال
آنکھ بھی چھلکی ہے جس پر اور ہے دل کو ملال
دیکھتی ہے لالہ وگل کو زمیں حیرت کناں
اب تو خوشبو سے جدا چلتی ہوائیں ہیں یہاں
روبرو ہے خاک میں لتھڑی جبیں حیرت کناں
گم شدہ آواز کی لیکن صدائیں ہیں یہاں
کون ہے جو اب یہاں اہل نظر کہلائے گا
حکمت ودانش میں خود کو باخبر کہلائے گا
اب یہاں تیری طرح تاب سخن ہوگی کسے
اب یہاں تیری طرح فکر چمن ہوگی کسے
کس میں ہوں گی جرأت اظہار کی بے باکیاں
اب یہاں پر خواہش دار ورسن ہوگی کسے
غم زدوں کے سب غموں کو سوچتی روشن ضمیر
تاابد بے مثل ہے سب سے جدا ہے بے نظیر!
٭٭٭