کلبھوشن ملاقات‘ پاکستان کی رحمدلی‘ بھارت کی سفاکی
بھارتی سفاک دہشت گرد اور بھارتی نیوی کے گرفتار جاسوس کلبھوشن یادیو کی اس کی والدہ اور بیوی سے ملاقات کرا کے پاکستان نے اپنے تئیں ایک ہمدردانہ اقدام اٹھایا تھا لیکن بھارت اپنی آئی پر اتر آیا اور پاکستان کا شکرگزار ہونے کی بجائے اس نے کلبھوشن کی فیملی کے واپس جاتے ہی راولا کوٹ کے علاقے میں لائن آف کنٹرول پر بلا جواز فائرنگ کر دی جس سے تین پاکستانی فوجی اہلکار شہید ہو گئے۔ بھارت کے اس بزدلانہ اقدام کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ ایسا کر کے بھارت نے امن کی کاوشوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اس سے قبل کلبھوشن ملاقات کے حوالے سے بھارتی میڈیا زہر اگلنے میں پیش پیش تھا اور اس کی کوشش تھی کہ کسی طرح اس ملاقات کا کریڈٹ مودی سرکار کے کھاتے میں ڈال دیا جائے۔ حالانکہ اس میں مودی سرکار کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ اس کا فیصلہ پاکستان نے خود کیا تھا تاکہ پاکستان کا روشن چہرہ اجاگر ہو سکے اور دنیا کو یہ پیغام پہنچ سکے کہ پاکستان انسانی حقوق کا احترام کرتا ہے اور یہاں اقلیتوں اور قیدیوں کو ضروری حقوق حاصل ہیں۔ بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے ایسے اقدامات کا جواب بغض اور شرپسندی کے ذریعے ہی دیا ہے۔ دراصل بھارت نہیں چاہتا کہ پاکستان کا سافٹ امیج دنیا کے سامنے ابھر سکے۔ وہ ہر محاذ پر بے بنیاد پراپیگنڈا کر کے اپنا ہی امیج تباہ کر رہا ہے۔ کلبھوشن کی اپنی فیملی سے ملاقات کے دوران انڈین ڈپٹی ہائی کمشنر بھی موجود تھا لیکن وہ صرف اس ملاقات کو دیکھ سکتا تھا اوراس نے بات چیت نہیں سنی۔ یہ بے بنیاد پراپیگنڈا بھی کیا جا رہا ہے کہ درمیان میں شیشہ کیوں لگایا گیا۔ حقیقت سب جانتے ہیں کہ کلبھوشن کس قدر خطرناک دہشت گرد ہے۔ اس کی سزائے موت کا حکم دیا جا چکا ہے۔ اس کی سکیورٹی کے حوالے سے بھی بہت سے خدشات موجود تھے۔ جس کی وجہ سے یہ تمام مراحل طے کرنے ضروری تھے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ملاقات کے تمام قواعد پہلے سے بھارت کو بتا دئیے گئے تھے۔ بھارت نے اگرچہ کئی ڈیمانڈز کی تھیں لیکن پاکستان نے اپنے مفادات کو دیکھتے ہوئے جو ضروری سمجھا وہ کیا۔
کلبھوشن کی پاکستانی علاقے سے گرفتاری دراصل بھارتی مداخلت کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔ وہ پاکستان میں حسین مبارک پٹیل کے فرضی نام سے مقیم تھا۔ کلبھوشن یادیو کا تعلق پولیس افسران کے خاندان سے ہے۔اپنے بیان میں اس نے تسلیم کیا تھا کہ وہ نیوی میں حاضر سروس افسر ہے، اس نے 1987 میں نیشنل ڈیفنس اکیڈمی اور 1991 میں بھارتی نیوی میں شمولیت اختیار کی، جہاں اس نے دسمبر 2001 تک فرائض انجام دیئے۔پارلیمنٹ حملے کے بعد اس نے بھارت میں انفارمیشن اینڈ انٹیلی جنس جمع کرنے کے لیے اپنی خدمات دینے کا آغاز کیا۔ کلبھوشن کا اپنے اعترافی بیان میں کہنا تھا کہ میں اب بھی بھارتی نیوی کا حاضر سروس افسر ہوں اور بطور کمیشنڈ افسر میری ریٹائرمنٹ 2022 میں ہوگی۔کلبھوشن کے اہلخانہ نے گزشتہ سال انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ کلبھوشن یادیو وقت سے قبل نیوی سے ریٹائرمنٹ لے کر کاروباری شخص بن گیا تھا اور اسی سلسلے میں وہ اکثر بیرون ملک بھی جاتا تھا۔ڈی این اے انڈیا کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ کلبھوشن یادیو ایرانی بندرگاہ شہر بندر عباس سے فیریز آپریٹ کرنے کے قانونی کاروبار سے منسلک تھا۔کلبھوشن کا کہنا تھا کہ اس نے 2003 میں انٹیلی جنس آپریشنز کا آغاز کیا اور چاہ بہار، ایران میں کاروبار کا آغاز کیا جہاں اس کی شناخت خفیہ تھی اور اس نے 2003 اور 2004 میں کراچی کے دورے کیے۔
2013 کے آخر میں اس نے بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے لیے ذمہ داریاں پوری کرنا شروع کی اور کراچی اور بلوچستان میں کئی تخریبی کارروائیوں میں کردار ادا کیا۔ پاکستان میں اس کے داخل ہونے کا مقصد فنڈنگ لینے والے بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنا اور قتل سمیت مختلف گھناؤنی کارروائیوں میں ان سے تعاون کرنا تھا۔ان تمام دہشت گردانہ کارروائیوں کے باوجود پاکستان نے کلبھوشن کی اپنی اہلیہ اور والدہ سے ملنے کی درخواست انسانی ہمدردی اور اخلاقی بنیادوں پر قبول کی حالانکہ پاکستان پر کسی جانب سے کوئی دبائو نہ تھا جیسا کہ بھارتی میڈیا پراپیگنڈا کر رہا ہے۔ بھارتی میڈیا قونصلر رسائی نہ دینے پر بھی سیخ پا ہے حالانکہ ایسی کوئی چیز ابتدائی طور پر طے ہوئی نہ ہی اس کا کوئی امکان تھا۔ خود بھارت جس طرح انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا رہا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ گزشتہ روز کشمیری حریت پسند لیڈر یاسین ملک کی اہلیہ مشال نے بھارت سرکار کو آئینہ دکھاتے ہوئے کہا کہ بھارت ایک طرف جمہوریت اور بنیادی حقوق کا علمبردار ملک بنتا ہے دوسری طرف حریت رہنما یٰسین ملک کی بارہا درخواستوں کے باوجود اسے اس کی بیٹی اور اہلیہ سے ملنے نہیں دیا جا رہا۔ مشال نے درحقیقت بھارت کو اس کی اوقات یاد دلا دی ہے کہ اپنے مجرم کے لئے تو بھارت عالمی عدالت انصاف میں چلا گیا ہے لیکن بھارت میں کوئی مسلمان غلطی سے گائے کے قریب سے بھی گزر جائے تو اسے سڑکوں پر گھسیٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جاتا ہے اور قانون خاموش تماشائی بنا رہتا ہے۔ کشمیر میں بھی بھارت ریاستی دہشت گردی کی نئی مثالیں قائم کر رہا ہے اور بھارتی فوج کے بہیمانہ تشدد اور پیلٹ گنوں کے چھروں سے ہزاروں لوگ زخمی اور بینائی سے محروم ہو رہے ہیں۔ اس کے غاصبانہ قبضے کے خلاف اگر کشمیری عوام احتجاج کرتے ہیں تو اسے یہ پرامن احتجاج بھی ہضم نہیں ہوتا اور وہ نہتے لوگوں پر گولیاں چلانے سے بھی باز نہیں آتا۔ حتیٰ کہ جنازوں کو بھی نشانہ بناتا ہے۔
گزشتہ روز پاکستان نے اپنے تئیں نیک نیتی سے جو قدم اٹھایا تھا اس کا جواب بھارت نے پاکستانی اہلکاروں کو شہید کر کے دیا ہے اسے پاکستانی قوم کبھی نہیں بھلا سکتی۔ درحقیقت بھارت کو اس کی زبان میں جب تک جواب نہ ملے وہ اوچھی حرکتوں سے باز نہیں آتا۔ ایسا کر کے وہ خود اپنا ہی کردار مزید داغدار کر رہا ہے اور دنیا یہ جان چکی ہے کہ بھارت کے نزدیک انسانی حقوق کے احترام کی کوئی اہمیت نہیں ۔ وہ کشمیر میں بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے اور کشمیریوں کے حقوق غصب کرنے کے لئے ریاستی غنڈہ گردی پر اتر آیا ہے۔ کلبھوشن جیسے شقی القلب دہشت گردوں کو کسی قسم کی رعایت ملنے کا خیال بھارت اپنے دل سے نکال دے‘ ایسے درندے جتنا جلد اپنے انجام کو پہنچ جائیں‘ اتنا ہی بہتر ہے۔