شریف آدمی
پپو خود کو ایک شریف آدمی سمجھتا ہے اور اکثر لوگوں سے کہتے سنا جاسکتا ہے کہ زندگی میں کوئی جرم نہیں کیا بس صرف ایک مقدمہ بنا تھا وہ بھی قتل عمدکا مطلب کسی کو جان سے مار دینے کا بس اس کے علاوہ اس پر کوئی مقدمہ نہیں ہے اور خالق کا اس پر خاص کرم ہے وہ ہر غریب کی مدد کرنے میں پیش پیش رہتا ہے تاکہ خالق اس سے راضی رہے ہاں البتہ وہ جھوٹ بولنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتا کیونکہ اس کا قول ہے کہ پاکستان میں یہ سب چلتا ہے جیسے قتل کے مقدمہ کو وہ اہم نہیں سمجھتا اسی طرح جھوٹ کو بھی وہ اس معاشرہ کے لئے اہم گردانتا ہے۔
جھوٹ کے حق میں دلائل دیتے ہوئے وہ کہتا ہے کہ سیاسی جماعتیں لوگوں کو اپنے منشور کی صورت میں جھوٹ کا سہارا لیکر ووٹ حاصل کرکے اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں اقتدار میں آنے کے بعد نہ تو ملک میں روٹی، کپڑا اور مکان کا معاملہ حل ہوا اور نہ ہی اس کے بیرونی قرضے ادا ہوسکے حالانکہ قرضے اتارنے کے لیے قرض اتارو ملک سنوارو سکیم کا اجرائ بھی کیا گیا تھا لیکن حالات گواہ ہیں کہ قرض، غربت اور بے روزگاری بڑھنے کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں کے ذاتی اثاثوں میں اضافہ ہوا۔یہ صرف جھوٹ کی وجہ سے ہی ہوا سیاستدانوں نے عوام کو اپنی چکنی چپڑی باتوں میں لگائے رکھا کہ وہ ان کے مسائل حل کررہے ہیں لیکن حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ اسی طرح جس جماعت نے روٹی، کپڑا اور مکان دینے کا وعدہ کیا اس کے قائدین کے علاقوں میں جا کر حالات کی گواہی حاصل کی جاسکتی ہے۔
سیاستدانوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پپو بھی یار باش آدمی بن گیا ہے اور دوستوں کے لئے قوانین کو بالائے طاق رکھ کر وہ ان کو خوش کرنے کے لئے کچھ بھی کر گزرتا ہے اور اس کے اقوال زریں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اگر قومی خزانہ کااستعمال اسکے ہاتھ میں ہو تو وہ کسی دوست کو غریب نہ رہنے دے ہاں غریب عوام کا بھی وہ خاص خیال رکھے گا مگر اپنے دوستوں سے ذرا کم کیونکہ پپو جھوٹ تو بولتا ہے مگر یہ بات وہ سچ میں کرکے بھی دکھاتا ہے کہ یار باش کیسے ہوتے ہیں
پپو پاکستان کے سیاستدانوں سے بہت متاثر ہے اور انہی کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ معاملات زندگی بھی چلانے کی کوشش کرتا ہے اس کے مطابق کسی بھی شعبہ میں ترقی کرنی ہوتو سیاسی افراد کی تربیت اس کے لیے مشعل راہ ہے اور اس نے بہت قریب سے کئی سیاست دانوں کو دیکھا ہے جس میں تمام پارٹیوں کے لوگ شامل ہیں پپو کہتا ہے کہ ایک اچھا بزنس مین بننے کے لئے سیاسی افراد جیسا ''دل گردہ" ہونا چاہیے کوئی کچھ بھی کہتا رہے ہر صورت اپنے مطمع نظر پر قائم رہو پپو کے نزدیک پانامہ لیکس کے ایشو پر ابھی تک صرف نواز شریف فیملی کو ہی ٹارگٹ کیا گیا ہے جو مبنی بر انصاف نہیں ہے کیونکہ جب تک تمام ملوث افراد کو نہیں پکڑا جاتا اس وقت تک ان سے خاندان کے ساتھ بھی رویہ نرم رکھا جانا چاہیے کیونکہ انہوں نے ملک و قوم کی بہت خدمت کی ہے ملک اندھیروں میں ڈوبا ہواتھا اور حکومت نے ان تھک محنت سے لوگوں کو اجالے دیے چاہے اجالوں کی قیمت بہت زیادہ وصول۔کررہے ہیں لیکن اجالے کو بجلی کی قیمت کے ساتھ 'نتھی' کرنا کسی طور بھی مناسب نہیں ہے۔
پپو کے نزدیک پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان نے ہر مطالبہ منوانے کے لئے احتجاج کا جو دھرنا کلچر متعارف کروادیا ہے وہ کسی طور پر ملک کے حق میں نہیں جائے گا آج نوازشریف کی حکومت عمران خان اور دیگر لوگوں کے دھرنوں سے نبردآزما ہورہی ہے لیکن کل اگر نوازشریف اقتدار میں آ گئے تو ……
موجودہ حالات پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے اس نے اپنی ماہرانہ رائے دی ہے کہ سب کچھ صرف نوازشریف کی مقبولیت کم کرنے کے لئے کیا جارہا ہے یہ سب کچھ کیاہے اس کے بارے میں وہ وضاحت کرنا ان حالات میں ضروری نہیں سمجھتا کیونکہ چند ہفتے قبل اس کے ایک جاننے والے نے گھی اور صابن کی ایجنسی لی ہے جس سے چند روز بعد ہی اس کو منافع حاصل ہونا شروع ہوگیا ہے اس لئے پپو کی سمجھ میں آگیا ہے کہ ایجنسی کے معاملات میں کتنا فائدہ ہے اس لئے ایجنسی کے بزنس سے منسلک لوگوں کے ساتھ اچھے رکھ کر ہی فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن پپو کو ایک بات پریشان کیے جارہی ہے کہ جس طرح سے ایجنسی حاصل کرنے کے بعد اس کے دوست نے گھی اور صابن کی فروخت کے لئے محنت کی اور پبلسٹی کیمپین بھی بھرپور طریقہ سے چلائے اتنے خاطر خواہ نتائج اس کوابھی تک نہیں ملے۔ لیکن پپو کا خیال ہے کہ اس کے دوست کو ایجنسی کے کاروبار سے اسی صورت فائدہ حاصل ہوگا جب موسمی سردی اور سیاسی گرمی کم ہوگی کیونکہ سردی کی لہر نے لوگوں کوگھروں تک محدود کرکے رکھ دیاہے اور سیاسی گرمی نے بہت سارے سیاستدانوں کو چکرا کر رکھ دیا ہے کہ وہ کس کشتی میں سوار ہوں کیونکہ ان دنوں کشتیاں کمزور ہیں اور پانی کی لہریں بپھری ہوئی ہیں
عمران خان کے نئے پاکستان بارے پپو بہت پریشان ہے کیونکہ یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آرہی کہ عمران خان کس طرح ایسا کر پائیں گے کیونکہ پاکستان ان دنوں جن حالات سے دو چار ہے اس میں ان کے بہت سے ساتھیوں کا ہاتھ ہے جو گزشتہ ادوار میں کبھی آمروں کے ساتھ رہے تو کبھی مفاد پرست لیڈروں کے ساتھ ان کی دوستیاں رہیں۔
پپو اس بات کا دعوی کرتا ہے کہ اگر ادارے اپنی اپنی حدود میں رھ کر کام کریں تو اپنے ساتھیوں کی مدد سے وہ بھی ایسی حکومت چلائے گا کہ امریکہ بھی پاکستان کا مقروض ہو جائے گا امریکہ کس حوالے سے مقروض ہو گا یہ پپو کا خفیہ پلان ہے جو وہ حکومت میں آکر ہی آشکار کرے گا اس کا کہنا ہے کہ کاروباری امور کیسے چلائے جاتے ہیں اس بارے وہ تمام رموزو اسرارسے آگاہ ہے۔