• news
  • image

دور سے نظر آنے والی روشنی اچھی لگتی ہے

آج کچھ ذاتی بات کرنے کو جی چاہتا ہے، ابا جی مرحوم کے علاوہ پورے خاندان میں ہمیں کوئی بندہ پسند تھا تو وہ ڈاکٹر غلام اکبر نیازی ہیں۔ وہ میرے ماموں ہیں مگر میرے دوست ہیں، ان کے ساتھ رشتے کو بیان کرنے کے لئے پوری کتاب چاہئے۔ وہ پہلے آدمی ہمارے قصبے میں ہمارے پورے علاقے میں تھے جو ایم بی بی ایس ڈاکٹر بنے۔ یہ نہیں کہ وہ میرے ماموں ہیں، ان جیسا ڈاکٹر میں نے نہیں دیکھا۔ 

مجھے اپنے پورے خاندان میں پہلا آدمی جو پسند آیا، میرے دادا جان خان ذیلدار موسیٰ خیل میانوالی تھے۔ ایسے وجیہہ آدمی کہ بس ، وہ محبوب آدمی تھے۔ یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ کوئی ان سے ملا ہو اور مرعوب نہ ہوا ہو، آپ متاثر بھی کہہ سکتے ہیں۔ متاثر ہونا نہ ہونا کسی کے بس میں نہیں ہوتا تھا۔ ان کا قد ساڑھے چھ فٹ سے زیادہ تھا، وہ مردانہ حسن کی ایسی تصویر تھے کہ جس کا تصور اب نہیں ہوسکتا۔
وہ غریب آدمی تھے مگر خوش نصیب آدمی تھے۔ بڑے بڑے انگریز افسر اُن کا سامنا کرتے ہوئے گھبراتے تھے۔ ایک انگریز نے اپنے گزیٹر میں ان کے بارے میں لکھا کہ وہ ہم کلام ہوتا ہے تو آدمی پر چھا جاتا ہے۔ اس کی آواز میں ایک راز تھا جو دم بخود کردیتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ قوت نام کی کوئی چیز ان کے پاس ٹھہر نہ سکتی تھی۔
انہیں پڑھنے لکھنے کا شوق بھی تھا، شاید انہوں نے اپنی زندگی ایک پوری لائن بھی نہ لکھی ہو مگر میرے پاس اس محاورے کے علاوہ کچھ نہیں کہ میں بیان کرسکوں۔ آخری عمر میں ان کی نظر جاتی رہی تھی ورنہ تو ایک سو سال کی عمر میں بھی وہ تازہ دم تھے۔ فریش کا لفظ ان کی چہرے پر بکھری ہوئی روشنی کی ترجمانی نہیں کرسکتا۔
ایک ضلع میں دو انگریز ہوتے تھے۔ ڈی سی اور ایس پی اور وہ اپنے علاقے پر حکومت کرتے تھے۔ وہ حکومت اور حکمت کے امتزاج سے کام چلاتے تھے۔ بادشاہ صرف انگلستان میں ہوتے تھے، یہ بادشاہوں کے نمائندے تھے اور ان کے جیسے تھے۔ وہ حکومت برطانیہ یعنی بادشاہت برطانیہ کے ملازم تھے اور اس علاقے کے لوگ ان کے لئے ملزموں کی طرح تھے؟ جو کچھ برصغیر میں ہوا، جو ترقی کے کام نظر آتے ہیں وہ انگریزوں کے کئے ہوئے ہیں۔
میں انگریزوں کی غلامی پر لعنت بھیجتا ہوں مگر یہ سوچنا بھی ہمارا کام ہے کہ ہمیں اب جو اپنے حکمران ملے ہیں، وہ کون ہیں؟ وہ جو بوڑھے ہیں بابے ہیں، آج بھی انگریزوں کے زمانے کو یاد کرتے ہوئے کھو جاتے ہیں۔ انہیں کون گزرے ہوئے دنوں کے دائرے سے باہر نکالے گا۔
میں کس وسوسے کی دلدل میں کھو گیا ہوں؟ میں نے ذکر کیا تھا اپنے ماموں کا، پرانے دنوں کی یاد میں ایک یہی رشتہ باقی رہ گیا ہے جو اچھا اچھا لگتا ہے۔
ماموں ڈاکٹر اکبر نیازی سعودی عرب چلے گئے، تب سعودی عرب جانا دبئی اور یورپ جانے سے بھی زیادہ بڑی دولت تھی۔ وہاں مزدوری کرنے والے بھی تھوڑے سے دنوں میں امیر کبیر ہو جاتے تھے۔
پہلے لوگ دولت کمانے جاتے تھے‘ اب حکومت بچانے جاتے ہیں۔ میاں محمد نوازشریف کو کسی نے نہیں نکالا‘ سپریم کورٹ کے چار پانچ ججز نے ایک فیصلہ کیا اور نوازشریف وزیراعظم ہاﺅس سے خود ہی نکل آئے۔ شاہد خاقان عباسی نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم بنیں گے؟ یہ بھی کمال نوازشریف کا ہے کہ انہوں نے جس بندے کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا‘ وہ وزیراعظم بن گیا۔ ہم نے تو سوچا تھا کہ عارضی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے بعد محترمہ کلثوم نواز مستقل وزیراعظم بنیں گی۔ ان کی انتخابی مہم صرف مریم نواز نے چلائی اور سب نے دیکھا کہ وہ اکیلی تھیں مگر ماں کا الیکشن جیت گئیں مگر برادرم چودھری نثار نے مریم نواز کو بچی قرار دیا۔
میرا خیال ہے کہ اگر مریم نواز خود الیکشن لڑتیں تو اس طرح کامیاب نہ ہوتی۔ میری تو خواہش تھی کہ چودھری نثار پاکستان کے وزیراعظم بنتے۔ وزیراعظم بننا اور وزیراعظم بنایا جانا دو مختلف باتیں ہیں۔ اس کی تشریح پھر کبھی کروں گا۔ فیصلے ہمارے ہوتے ہیں اور ان کیلئے فیصلہ نجانے کہاں ہوتا ہے۔
اب ایک بات لکھنے والوں کیلئے بھی پڑھ لیں۔ اپنے چار ناولٹ جمع کرکے ایک کتاب ایک اچھے دل والی دردانہ نوشین خان نے مظفر گڑھ سے شائع کی ہے۔ بڑے شہروں سے دور کوئی روشنی دور سے نظر آجاتی ہے اور دیر تک نظر آتی رہتی ہے۔ میں نے اسی روشنی میں کتاب دیکھی ہے۔ چار ناولٹ ایک ساتھ پڑھنا میری زندگی کا ایک انوکھا تجربہ ہے۔
دردانہ نوشین خان کی تحریر میں ایک تاثیر ہے جو خوبصورت دوریوں کی طرح جذبوں کو اچھی لگتی ہے۔ میں دردانہ نوشین خان کو مبارکباد دیتا ہوں۔ مجھے وہ دن یاد آرہے ہیں جب میں مظفر گڑھ میں تھا۔ میں نے میٹرک مظفر گڑھ سے کیا ہے۔
میرے ابا بہت ذوق و شوق کے آدمی تھے۔ وہ خان گڑھ میں ایس ایچ او تھے۔ ایک قاتل کی ماں کے پاس وردی پہنے ہوئے زمین پر بیٹھ گئے اور دیر تک روتے رہے۔ سب لوگ حیران رہ گئے۔ پھر سب مل کر روئے۔ روتی ہوئی بوڑھی ماں کیلئے .... ابا کو چپ کرانا مشکل ہو گیا۔
٭٭٭٭٭

epaper

ای پیپر-دی نیشن