نیا سال، نیا جوش، نئی امنگیں، نئے خواب، نئے امکان
قارئین کرام! آپ سب کو نیا سال مبارک ہو۔ نئے سال کی پہلی صبح بہت نویلی اور البیلی ہوتی ہے۔ جس سے بہت سی امیدیں، توقعات، خواہشات اور خوابوں کے سلسلے جڑ جاتے ہیں۔ بہت سارے خواب، امنگیں، جوش، ولولہ نئے سال کے ساتھ وابستہ ہو جاتا ہے۔ امکانات کی ایک نئی دنیا خیالوں کے بادبانوں سے لپٹ جاتی ہے۔ نئے سال کی اولین صبح اپنے جلو میں روشنیاں ہی روشنیاں لاتی ہے۔ سہانے سپنے، امیدوں کے چراغ اور خواہشوں کے بادل تعبیروں کی سمت بھاگتے ہیں۔ دعا ہے کہ جو دلکش خواب آنکھوں میں بسے ہیں دل نے جس کی جستجو کی ہے اور عمل کے لئے جو قدم اٹھے ہیں، وہ منزل مراد تک پہنچیں۔ تمنائیں سیراب ہوں اور زندگی کی تمام صبحیں روشن، متوالی اور بھرپور ہوں۔ سال کی پہلی صبح دعائوں کے ایک جلو میں انگڑائی لیتی ہے اور سال کی آخری رات پر انسان ایک ٹھنڈی سانس بھرتا ہے کیونکہ 365 دنوں کا یہ پھیرا اکثر لوگوں کی زندگی میں صرف 65 دن خوشی دیتا ہے اور 300 دن ہمارے ملک میں کشٹ اٹھانا پڑتا ہے۔ ہر روز الزامات کی بارشیں ہوتی ہیں، گالی گلوچ چلتا ہے، جلسے جلوس نکلتے ہیں۔ دھرنے ہوتے ہیں، مظاہرے ہڑتالیں کی جاتی ہیں۔ مہنگائی میں اضافے ہوتے ہیں۔ ہر روز لوگ خودکشیاں کرتے ہیں۔ لڑائیاں جھگڑے ہوتے ہیں کوسنے صلوٰتیں سنائی جاتی ہیں۔ تعویذ دھاگے کئے جاتے ہیں۔ کالے جادو کرائے جاتے ہیں۔ رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں، فتنے فساد برپا ہوتے ہیں۔ روز وطن عزیز میں سینکڑوں حادثات رونما ہوتے ہیں۔ روڈ ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں۔ ریل گاڑیوں کے حادثات ہوتے ہیں اور کبھی جہاز کریش ہو جاتے ہیں۔ چھتیں گرتی ہیں، سیلاب آتے ہیں، زلزلے آتے ہیں۔ کبھی گھروں میں اور کبھی فیکٹریوں میں آگ لگتی ہے۔ ہر روز ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی غفلت سے روزانہ سو سے دو سو افراد غیر طبعی اموات مرتے ہیں۔ ادویات اور خوراک میں ملاوٹ ہے ہر روز سو لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور ہزاروں افراد نت نئی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ درد، کرب اور دکھ کے اتنے سلسلے ہیں کہ اگر کوئی 365 دنوں میں سے 65 دن بھی سکھ سکون کے گزار لیتا ہے تو وہ خوش نصیب ہے۔ 365 دن تو دنیا میں کوئی ہی انسان ہنسی خوشی گزار پاتا لیکن جدید اقوام نے ان تمام مسائل پر قابو پا لیا ہے جن کی وجہ سے عام انسان کی خوشیوں میں رخنہ پڑتا ہے مثلاً امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان وغیرہ میں حکومتوں نے غربت کا خاتمہ کر دیا ہے جو ام الخبائث ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن، بیماری اور ملاوٹ کا خاتمہ کر دیا ہے۔ لوگوں کو ضروریات زندگی میسر ہیں۔ ماحول آلودگی سے پاک ہے۔ روزگار کے مواقع میسر ہیں۔ انہوں نے ہر طرح کی بیماریوں سے نجات حاصل کر لی ہے۔ دنیا کی سب سے غلیظ بیماری یعنی کرپشن کو ختم کر دیا ہے جس کی وجہ سے زندگیاں اور خوشیاں محفوظ ہو گئی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اگر کوئی بیمار، معذور، بے روزگار ہے تو اسے سوشل الائونس ملتا ہے۔ لیکن انتہائی دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے اردگرد حکومت کی فراہم کردہ، ساختہ اور خود ساختہ اتنی زیادہ ٹینشن ڈپریشن اور فرسٹریشن ہے کہ یہاں لوگ کسی دوسرے کو خوش دیکھ کر بھی شدید ٹینشن میں آجاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ شخص بھی کس طرح ان کی مانند مصائب و آلام کا شکار ہو جائے۔ اس کے چہرے پر بھی نحوست ٹپکنے لگے۔ اس کی زندگی بھی درد کی چکی میں پسنے لگے۔ یہ صورت سب سے زیادہ ہمیں سیاست میں نظر آتی ہے اور جس جمہوریت کا یہاں راگ الاپا جاتا ہے تو ریاست کے لئے ’’سوکن‘‘ ہی ثابت ہوئی ہے۔ پاکستانی جمہوریت نے آمریت کو مات دے دی ہے۔ دنیا بھر میں جب نیا سال یا ان کا کوئی تہوار آتا ہے تو ہر ترقی یافتہ ملک اپنے شہریوں کو تمام تر سہولیات فراہم کرتا ہے اور بہت بڑے پیمانے پر نئے سال کا جشن مناتا ہے۔ یہ اس بات کی علات ہے کہ ان کی ریاست مضبوط مستحکم توانا ہے۔ ان کی جمہوریت برگ و بار لا رہی ہے۔ ان کی سیاست میں انصاف، رواداری اور مساوات ہے۔ نئے سال کی خوشی منانا ہزاروں سال پرانی روایات میں سے ایک ہے۔ یونان، اٹلی، ایران اور مصر میں جشن نوروز منایا جاتا تھا۔ افسوس ہمارے ہاں آج کا اخبار اٹھا کر پڑھئے تو سال کے پہلے دن رونما ہونے والے حادثات سے بھرا ہو گا۔ اس کی بڑی وجہ ہمارے ہاں عدم مساوات ہے۔ علم اور شعور کی کمی ہے۔ رواداری اور وسیع النظری کا فقدان ہے۔ برداشت تو اللہ کے فضل سے ہے ہی نہیں… اوپر سے حکومت کی نااہلیاں اور خود غرضیاں بھی غضب کی ہیں۔ اس سے بڑا مذاق کیا ہو گا کہ حکومت نے عوام کو نئے سال کا پہلا تحفہ کیا دیا ہے کہ پٹرول ایک دم ہی 4 روپے سے زیادہ مہنگا کر دیا ہے۔ اب پورا دن بندے نے ایک لٹر پٹرول تو استعمال نہیں کرنا ہوتا کہ چار روپے کا صدمہ برداشت کر لے۔ ڈیزل بھی چار روپے لٹر مہنگا کر دیا اور مٹی کا تیل سات روپے لٹر مہنگا کرکے خود ہی عوام پر ڈرون اٹیک کر دیا ہے۔ مہنگائی کی جو شرح اس حکومت نے سال میں ایک بار بجٹ بڑھانے کے بجائے ہر ماہ اضافہ کرکے عوام کو جھٹکے لگا رکھے تھے۔ سال کے آخر تک تو اس حکومت نے ہر پندرواڑے اور دسمبر میں ہر ہفتے مہنگائی بڑھا کر عوام کی کمر اور امیدیں سب توڑ ڈالی ہیں۔ ایک طرف بے روزگاری، ایک طرف مہنگائی اور ایک طرف ٹیکسوں کی مار جبکہ ایک طرف کرپشن کا جن منہ پھاڑے کھڑا ہے۔ اس پر حکومت اور اپوزیشن کی چوبیس گھنٹے محاذ آرائی نے عوام کو شدید بددل اور مایوس کر دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کس حساب میں عوام کو ٹیکس کے انجکشن لگا رہی ہے۔ ٹیکس کا بھی کوئی جواز ہوتا ہے۔ بلاجواز ٹیکسوں پر سپریم کورٹ کو سوموٹو ایکشن لینا چاہئے۔ حکومت کی نااہلیوں اور نالائقیوں کی وجہ سے آج عوام جہنم کی ریہرسل پر مجبور ہے۔ حکومت اپنے اللے تللوں کی وجہ سے عوام کی زندگی میں زہر گھول رہی ہے۔ پانامہ کیس کے بعد نواز شریف، شہباز شریف اور ان کے خاندان کے 40 افراد، سو سے زیادہ وزراء مشیر اور پارٹی ارکان نے برطانیہ، دوبئی، امریکہ، سعودی عرب کے کم و بیش ہر ہفتے چکر کاٹے ہیں اور ہر فرد کے ایک چکر پر بیس لاکھ خرچہ آیا ہے۔ اب آپ اندازہ لگا لیں کہ ڈیڑھ سو افراد پر ہر ہفتے پندرہ سے بیس لاکھ کا خرچہ آیا ہے۔ یہ خرچہ کس نے اٹھایا ہے؟ ایک نئی ڈیل اور گیم کے پہلے شہبازشریف خصوصی طیارے سے سعودی عرب گئے پھر نوازشریف بھی چلے گئے ان کے ساتھ جانے والوں کی تعداد ستر افراد سے زیادہ ہے۔ لوگوں کو مہنگائی اور ٹیکسوں کی آگ میں جھونک کر یہ لوگ اپنے ذاتی اغراض کی تکمیل کر رہے ہیں اور قومی خزانہ خرچ کر رہے ہیں۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ مال مفت دل بے رحم۔ دوسری طرف ڈاکٹر طاہرالقادری نے اے پی سی میں حکومت کو سات دن کی مہلت دے کر سخت وارننگ دی ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے سخت موقف اپنایا ہے لیکن وہ بھی عین موقع پر کینیڈا چلے جاتے ہیں۔ اے پی سی میں پیپلزپارٹی کی شمولیت خطرے کا نشان ہے۔ آصف زرداری دوستی کی آڑ میں کوئی نئی چال چل رہے ہیں۔ ممکن ہے کوئی این آر او کروانے کے لئے ن لیگ کی درپردہ مدد کر رہے ہوں اور اپوزیشن جماعتوں کی توجہ ہٹانے کے لئے یہ سب کر رہے ہوں۔ ورنہ وہ 14 افراد کے بیہمانہ قتل پر وہ پہلے کیوں نہیں جاگے۔ شریف براران کی سعودی عرب روانگی کا خطرہ ابھی تک صحیح معنوں میں صرف عمران خان نے بھانپا ہے۔ عمران خان کو جاننا ہو گا کہ آصف زرداری ہمدردی کے نقاب میں کوئی نیا گل تو نہیں کھلا رہے۔ شریف برادران کو بھی چاہئے کہ وہ اب بس کریں 35 سال کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ شریف برادران کو اب اپنی غلطیوں سے تائب ہو جانا چاہئے۔ اس ملک کی جان بخش دینی چاہئے جس ملک سے انہیں عزت محبت، شہرت اور دولت کے انبار ملے۔ جس ملک سے انہوں نے قارون کے خزانوں سے زیادہ لوٹا، اب اس غریب ملک کو اس کے عوام کی خاطر معاف کر دیں۔ نئے لوگوں کو آنے دیں اور نئے لوگ عوام میں سے ہوں۔ 2018ء شروع ہو چکا ہے۔ اس سال الیکشن بھی متوقع ہیں۔ بشرطیکہ کوئی شاطرانہ چال نہ چلی گئی۔ عوام کو اس سال سے نئی امیدیں وابستہ ہوئی ہیں۔ اس سال سے بہت سی امنگیں اور توقعات جڑی ہیں۔ اس لئے خواہشوں اور آرزئووں خوابوں اور امیدوں کی اس تسبیح کو اپنی اپنی ذاتی اغراض کے لئے نہ توڑیں۔ اس سال کو پاکستان کا ایک کامیاب، خوبصورت اور خوشگوار سال بننے دیں۔