نیا سال، پیکیج اور ممکنہ ڈیل
دنیا بھر میں نوائے وقت کے لاکھوں قارئین کو سال 2018ء کی آمد پر نیک خواہشات اور مبارک باد پیش کرتا ہوں اور بائیس کروڑ پاکستانیوں کو جو کسی معجزاتی تبدیلی کے منظر ہیں۔ میری خواہش ہے کہ شروع ہونے والا یہ نیا سال ان کی امیدیں، خواہشیں بر لائے (آمین) قارئین! قیامِ پاکستان کو ستر برس بیت چکے ہیں اور ہر سال دسمبر کے آخری دنوں میں میرے ہم وطنوں کی یہی دعا اور خواہش ہوتی ہے کہ بدلنے والا سال ان کے نصیب بھی بدل ڈالے گا۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ جیسے جاں بہ لب مریض قرضہ لے کر مہنگی سے مہنگی دوائیں کھاتا ہے کہ اسے افاقہ ہوگا اور وہ ایک دن سارا قرض ادا کر دے گا۔ بالکل اسی طرح بہت سال پہلے میں نے سنا تھا کہ میرے سمیت ہر پاکستانی دس ہزار روپے کا مقروض ہے مگر آج میرا ہر ہم وطن تقریباً ایک لاکھ تیس ہزار روپے کا مقروض بن چکا ہے۔ موجودہ حکمرانوں سمیت آنے والے ہر حکمران نے قوم کو یہ نوید سنائی کہ وہ کشکول توڑ کر پاکستان کو قرضوں کی لعنت سے آزاد کروائے گا مگر وہ کشکول تو نہ توڑ سکے مملکت خداداد پاکستان 1971ء میں اپنے قیام کے صرف تیئس سال بعد دولخت ہو گیا۔ موجودہ حکمران ٹولے نے بھی آج سے ساڑھے چار سال پہلے عوام کے سامنے قطار در قطارلگے سبز باغوں کی نوید سنائی،یہ باغ خزاں رسیدہ ثابت ہوئے۔ کھوکھلے نعروں کا ایک اژدہام تھاکہ ہم پاکستانی عوام کو آئی ایم ایف کے چنگل سے آزاد کروائیں گے مگر شومئی قسمت آزادی کیا خاک نصیب ہونا تھی گذشتہ ساڑھے چار سالوں میں موجودہ قرضے کا نصف مزید قرض لے کر قوم کے گلے میں غلامی کا طوق ڈال دیا گیا اور ایسا کچھ اچنبھے کی بات بھی نہیں کہ آج کے اس ڈیجیٹل دور میں جبکہ ہم ایک نیوکلیئر پاور ہیں اور ہمارے چاروں اطراف سرحدیں محفوظ نہیں۔ عالمی دنیا میں ہم تنہائی کا شکار ہو چکے ہیں۔ ساڑھے چارسال تک ملک کی خارجہ پالیسی کا علم خدا تعالیٰ کی ذات کے علاوہ صرف حکمران خاندان کو تھا حتیٰ کہ کوئی مستقل وزیر خارجہ بھی مقرر نہ کیا گیا اور دفاعی منصوبہ بندی کا یہ عالم تھا کہ ایک نان پروفیشنل بندے کو بجلی اور پانی کی وزارت کے علاوہ وزارت دفاع بھی سونپ دی گئی اور موصوف وزیر دفاع کا یہ المیہ تھا کہ وہ پارلیمنٹ کے فلور اور حساس پلیٹ فارمز پر اپنے ہی ملک کی فوج کے خلاف گلا پھاڑ پھاڑ کر زہر افشاں رہا ۔ ملک چلانے کے لیے وزارت خزانہ کا ایک کلیدی کردار ہوتا ہے مگرموجودہ حکومت نے اپنے ایک سمدھی کو وزیر خزانہ مقرر کر رکھا تھا۔ موصوف وزیر خزانہ نے اپنے ساڑھے چار سالہ تقرری میں پندرہ ارب ڈالرز کے ریکارڈ قرضے حاصل کرکے ملکی معیشت کو گہری کھائی میں دھکیل دیا اور اس وقت کرپشن کے الزامات کے ساتھ استعفیٰ دیئے بغیر مفروراور عدالتی اشتہاری ہیں۔
قارئین! اوپر بیان کیے گئے حالات و واقعات کو مدِنظر رکھ کر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ماہ و سال بدلنے سے نہیں صرف ذہن اور سوچ بدلنے سے تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ قارئین!پانامہ کیس کے بعد عدالت عظمیٰ کی طرف سے ہونے والے فیصلوں کے بعد لڑکھڑاتی ہوئی موجودہ حکومت کو آخری جھٹکا اس وقت لگا جب ہمارے کچھ نالائق وزیروں نے قانونِ ختمِ نبوتؐ کی شقوں میں ترامیم چاہیں اور اس اقدام کے بعد شریف خاندان لائن کے ایک طرف کھڑا تھا جبکہ عوام دوسری طرف اور جب موجودہ حکمران طبقے کی کہیں بھی دال نہ گلی تو این آر او کے لیے غیر ملکی دوستوں، آقائوں اور کاروباری پارٹنرز کے پیچھے بھاگنا پڑا۔اس دوران سعودی عرب میں سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئیں ۔ شاہ عبداللہ کی جگہ شاہ سلمان نے زمام اقتدار سنبھالی جنہوں نے اقتدار میں آتے ہی روایتی ولی عہد کو ہٹا کر اپنے بیٹے کو ولی عہد مقرر کیا اور اسی دوران یمن کے ساتھ سعودی عرب کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا گیا اور گذشتہ دنوں سعودی عرب کے امیرگھرانوں کو پابند سلاسل کر لیا گیا۔ سعودی سرکار اسے کرپشن کے خلاف بڑا کریک ڈائون قرار دے رہی ہے جبکہ جھورے جہاز کے بقول یہ ایک خاندانی اور نجی بغاوت تھی جسے فی الوقت طاقت سے دبا دیا گیا ہے کیونکہ اس سارے آپریشن کے دوران درجن بھر سعودی شہزادوں کو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔
قارئین!سعودی حکومت کے حالات جب تھوڑے معتدل ہونا شروع ہوئے تو انہوں نے ایک پلان کے تحت شہزادہ ولید بن طلال سمیت دیگر شہزادوں کے سامنے ایک پیکیج ڈیل رکھی جس کی رو سے متعدد شہزادوں نے درجنوں ارب ڈالرز سرکاری خزانے میں جمع کروائے اور قید سے نجات حاصل کی۔ جھورے جہاز کی اطلاع اور میرے باوثوق ذرائع کے مطابق گذشتہ ہفتے وزیر اعلیٰ پنجاب شہبازشریف اور سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف کو خصوصی طیاروں کے ذریعے سعودی عرب بلایا گیا جو تادمِ تحریر سعودی شاہی خاندان سے مذاکرات میں مشغول ہیں۔ میرے انتہائی باوثوق ذرائع نے یہ خبر دی ہے کہ این آر او کی تلاش میں نکلنے والے شریف برادران کو بھی سعودی عرب کے شاہی خاندان نے ایک پیکیج ڈیل آفر کی ہے جس کی شقوں کے مطابق شریف برادران کو کہا گیا ہے کہ وہ دس ارب ڈالرز حکومت پاکستان کے قومی خزانے میں جمع کرا دیں اور دس سال تک شریف خاندان کا کوئی بھی فرد الیکشن میں حصہ نہیں لے سکے گا اور اس معاہدہ کی ضامن گورنمنٹ آف سعودی عریبیہ ہو گی اور اس معاہدے کے نتیجے میں شریف خاندان کو پانامہ کیسز کے علاوہ دیگر تمام کیسز میں ریلیف دیا جائے گا۔ آخری اطلاع آنے تک شریف خاندان چار ارب ڈالرز کی کیش رقم یا اس کے مساوی اثاثہ جات دے کر ڈیل کرنے کو تیار ہیں جب کہ پاکستانی عسکری قیادت اور اسٹیبلشمنٹ ذرائع نے اس ڈیل آفر کو مسترد کر دیا ہے۔ جھورے جہاز کے بقول موجودہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کا اصرار اس بات پر ہے کہ اب کی بار کوئی نیا این آر او نہیں ہوگا اور پانامہ کیس اور دیگر ریفرنسز کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا مگر قرائن یہ بتاتے ہیں کہ اگر شریف خاندان دس ارب ڈالرز یا اس سے بڑی رقم ادا کرنے کو تیار ہوا تو عالمی دبائو کے تحت ایک ممکنہ ڈیل ہو سکتی ہے کیونکہ اس سال جون سے پہلے پاکستان کو قرضوں اور عالمی بینکوں کی قسطیں ادا کرنے کے لیے کم از کم پانچ ارب ڈالرز کی رقم درکار ہے چونکہ ملکی خزانہ تقریباً خالی ہو چکا ہے اور پاکستان کی اکانومی انتہائی ابتر حالت میں ہے جبکہ فوج مسلسل حالت جنگ میں۔ اس لیے کوئی بعید نہیں کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے چنگل سے بچانے کے لیے سعودی عرب کے پیش کردہ پیکیج کو قبول کرنا پڑے۔ میرے اپنے تجزیے کے مطابق بے شک یہ ڈیل پیکیج ناپسندیدہ عمل ہوگا مگر عظیم تر ملکی بقا اور سلامتی کو مدنظر رکھ کر ہمیں یہ کڑوا گھونٹ پینا ہی پڑے گا کیونکہ اقوام کی زندگیوں میں کئی ایسے مقام آتے ہیں جہاں عقل و دانش سے کیے گئے فیصلے ملکی بقا کی علامت ہوتے ہیں اور پاکستان کی اپوزیشن پارٹیوں کو اس موقع پر ذاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر فیصلے کرنے ہوں گے۔ یقینا ہماری چاروں سرحدیں انتہائی حساس ہیں اور دنیا بھر کی انٹیلی جنس ایجنسیاں ہماری کسی ایک غلطی کی منتظر ہیں