• news
  • image

امریکی صدر پاکستان کی قربانیاںبھول گئے

ٓامریکی صدر نے نئے سال کاآغاز پاکستان کے خلاف ایک دھمکی آمیز ٹویٹ سے کیا۔وہ کہتے ہیں کہ امریکہ بیوقوف ہے جس نے پاکستان کو پندرہ برس میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے تینتیس ارب ڈالر ادا کئے مگر پاکستان نے جواب میں جھوٹ بولاا ور دھوکہ دیا، آئندہ پاکستان کی امداد بند کر دیں گے۔

صدر ٹرمپ ایک مخصوص ذہنی کیفیت کے مالک ہیں، ان کی کس بات کو سنجیدگی سے لیا جائے ا ور کسے ہذیان کا نام دیا جائے، یہ تفریق ذرا مشکل ہے مگر پاکستان کے ارد گرد اور اندر بھی جو حالات پیدا کئے جا رہے ہیں ، وہ سنگین خطرات کی چغلی کھاتے ہیں ، اس لئے ٹرمپ کی تازہ اور اگلی پچھلی ساری دھمکیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
حال ہی میں امریکی انتظامیہ نے درجہ بدرجہ ایک ہی دھمکی بار بار دہرائی ہے کہ پاکستان بندہ نہ بنا تو اسے بہت کچھ کھونا پڑے گا، یہ دھمکی بھی دی گئی ہے کہ پاکستان نے دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ نہ کئے تو امریکہ خود سرجیکل اسٹرائیک کرے گا، یہ بھی سنا گیا کہ ایبٹ آباد کے ا ٓپریشن کی طرح لاہور میں ایک آپریشن کر کے حافظ سعید کو امریکہ ا ٹھا لے جائے گا۔
یہ ساری دھمکیاں پاکستان کے اقتدارا علی کے خلاف ہیں، اس پس منظر میں صدر ٹرمپ کی حالیہ دھمکی مورا وور کے مترادف ہے۔
ہم اگر جواب میں یہ کہیں کہ امریکہ ہماری قربانیاںبھول گیا تو یہ کوئی نرالی بات نہیں ہو گی، ا،مریکہ کی پرانی عادت ہے کہ وہ کام نکلنے پر پاکستان کو ٹشو پیپر کی طرح ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتا ہے، 80کے عشرے میں پاکستان نے سوویت یونین کے خلاف جہاد کیا، اسے شکست فاش دی، افغانستان سے پسپا کیاا ور پھر اسی جہاد کے نتیجے میں سوویت روس پارہ پارہ ہو گیا، کیا یہ پاکستان کاایک احسان عظیم نہیں تھا۔ یحییٰ خان کے دور میں پاکستان نے امریکہ اور چین کو ہاتھ ملانے کا موقع فراہم کیاا ورا س مقصد کے لئے ہنری کسنجر کے چین کے دورے کا خفیہ خفیہ انتظام کیا جس سے دنیا کی سٹریٹجک صورت حال ہی بدل گئی، یہ بھی پاکستان کاایک عظیم احسان تھا، ایوب دور میں سوویت روس کے خلاف جاسوسی کے لئے امریکہ کو پشاور کے قریب بڈ بیر میں ایک خفیہ اڈہ دیا گیا جہاںسے یو ٹو جاسوس طیاروں کی پروازیں اڑتی رہیں، تو کیا پاکستان نے یہ کوئی گناہ کیا تھا، امریکہ نے سیٹو اور منٹو کے اتحاد بنائے اور پاکستان چھلانگ لگا کر ان اتحادوںمیںشامل ہو گیا تو کیا یہ پاکستان کی دھوکہ دہی کی واردات تھی اور اب نائن الیون کے بعد جنرل مشرف نے قوم سے پوچھے بغیر ایک امریکی فون کال پر پاکستان کوامریکی جنگ میں جھونک دیا اور پندرہ برسوںمیں پاکستان کے اندر ایک لاکھ بے گناہ شہید ہو گئے، چھ ہزار فوجی جوان ا ور افسر بھی شہید ہوئے اور پاکستان کی معیشت کوایک سو بیس ارب ڈالر کا نقصان پہنچا، اس کے لئے امریکہ نے 33ارب اگر دے بھی دیئے تو کونسا حاتم طائی کی قبر پہ لات مار دی، ان میں سے چودہ ارب ڈالر تو جنگی اخراجات تھے جس کے لے امریکہ ڈرون مارنے کے لئے پاکستان کی ہی سرزمین استعما ل کرتا رہا، نیٹو افواج کے بھاری ٹرکوںنے پاکستان کی سڑکیں ادھیڑ ڈالیں تو کیا ان کے اخراجات ادا کر کے امریکہ نے پاکستان پر کوئی احسان کیا اور دہشت گردی کی جنگ لڑنے کے لئے پاکستان کو مخصوص جنگی اسلحہ درکار تھا، وہ اگر امریکہ نے دیا تو ان کا بل پاکستان کے کھاتے میں کیوں شانل کر لیا گیا، اول تو ہیلی کاپٹر واپس بھی منگوا لئے گئے ہیں۔
امریکی صدر کو پتہ لگانا چاہئے کہ مشرف کا مارشل لا گیارہ برس تک چلتا رہا، اس دوران جتنی رقم مشرف کو ادا کی گئی، وہ ساری کی ساری لازمی طور پر امریکی یا یورپی بنکوںمیں جمع ہے، امریکہ اس سے یہ رقم واپس لے لے اور اس کا طعنہ بیس کروڑ پاکسنا نیوں کو نہ دے۔ اس کے بعد زرداری صدر بنے،،انہیں بھی کوئی رقم دی گئی تو ا سکاحساب اس سے لے لیا جائے ، وہ دنیا میںموجود ہے اور اس کے احتساب پر پاکستانی خوش ہوں گے، باقی رہ گئی کوئی ایسی رقم جو افواج پاکستان کے اکائونٹ میں دی گئی تو یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ افواج پاکستان نے قربانیوں پر قربانیاں دے کے دہشت گردی کا خاتمہ کر دیا۔ اس دہشت گردی میں وہ عناصر شامل تھے جو افغان سرزمین پر بھارت کی را سے تربیت لیتے رہے، یعنی دھشت گردوں کی نرسریاں امریکی نگرانی میں افغانستان میں تھیں اور ان کو ختم کرنے کی ذمے داری افواج پاکستان پر عائد کر دی گئی تھی، ان دھشت گردوںنے پاکستان میںخون کی ندیاں بہائیں، مسجدوں،مزاروں، بازاروں ، مار کیٹوں، چرچوں ، امام بارگاہوںا ور ننھے منے پھول جیسے بچوں کے اسکولوں کو بھی نشانہ بنایا گیا، کیا مریکہ ان سب قربانیوں سے ا ٓنکھیں بند کر کے صرف دھمکیاں ہی دے سکتا ہے۔
اصل میں جب امریکی افواج کابل میں اتری تھیں تو ان کے سامنے ایک گرینڈ ڈیزائن تھا، یہ ڈیزائن تھا پاکستان اور چین کو گھیرے میںلینے کا۔ اگر اوبامہ نے کہا تھا کہ وہ امریکی افواج کوو اپس لے جارہے ہیں تو کونسی خوشنما چیز تھی جس کے لئے یہ افواج جوںکی توں بیٹھی رہیں اور ان میں اضافہ بھی ہوتا رہا۔ امریکی اور نیٹو افواج اس قدر نااہل ثابت ہوئیں کہ وہ کابل ا ور قندھار جیسی بڑی چھائونیوں سے باہر قدم رکھنے کے قابل نہیں ہیں ، باقی افغانستان کے طو ل و عرض پر انہی طالبان کا قبضہ ہے جن کی حکومت کو امریکیوںنے توڑا تھا، یہ مٹھی بھر لوگ عالمی افواج کے کنٹرول میں نہیں آ سکے تو اس میں پاکستان کو کیوں دوش دے رہے ہو، پاکستان نے اس دوران فاٹا کی ساری ایجنسیاں صاف کر ڈالیں اور ان بلندو بالا پہاڑوں کی سنگلاخ چوٹیوں کے نیچے سرنگوںکے اندر گھس کر دہشت گردوں کا مکمل صفایا کر دیا تھا، اب اگر پاکستان میں کوئی واردات ہو جاتی ہے تو کل بھوشن یادیو کے دہشت گردوں کا نیٹ ورک سرگرم ہے جسے جلد ہی ٹھکانے لگا دیا جائے گا، کراچی میں بھارتی را کے ایجنٹوں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے، کراچی کی رونقیں اور روشنیاں بحال ہو چکی ہیں اور گزشتہ روز پاکستانیوںنے نئے سال کا جشن منایا توفوج کے ترجمان نے بجا طور پر قوم کو یا ددلایا کہ ان خوشیوں کے لئے پاک فوج کے جاںنثاروں کی قربانیوں کا کردار ہے۔
امریکی صدر کی دھمکیاں صرف پاکستان کے لئے خاص نہیں، یہ دھمکیاں ایران کے لئے بھی ہیں، شمالی کوریا کے لئے بھی ہیں ، شام کے لئے بھی ہیں اور چین کے لئے بھی جسے امریکہ نے للکارا ہے کہ دنیا کی کسی طاقت کو امریکی تجارتی بالادستی ختم کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، یوں لگتا ہے کہ امریکی صدر پوری دنیا کے ساتھ لڑنے بھڑنے کے لئے کمر کس رہے ہیں۔چنگیز خان ، ہلاکو خاں ا ور ہٹلر نے یہ سب کچھ کر کے دیکھ لیا، اس دنیا پر کوئی تنہا اپنا حکم نہیں چلا سکا، بس ایک خونریزی ہے جو ہوتی رہی اور ٹرمپ صاحب اس سے زیادہ کچھ نہیں کر پائیں گے، ناگا ساکی ، ہیروشیما، ویت نام، لائوس ، کمبوڈیا، لیبیا، عراق اور افغانستان میں اس نے انسانیت کا خون چوسنے میںکوئی کسر نہیں چھوڑی، ایک قیامت برپا کی، ایک حشر برپا کیا۔ اب امریکی خطرات سے نبٹنے کے لئے پاکستان کے پاس کئی ایک امکانات موجود ہیں اور انشااللہ پاکستان اپنی سلامتی، سیکورٹی ا ور اقتداراعلی کے تحفظ میں کامیاب و کامران رہے گا۔!

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

epaper

ای پیپر-دی نیشن