وزیر اعلی بلوچستان کیخلاف عدم اعتماد 25 ارکان نے حمایت کردی
کوئٹہ + اسلام آباد (بیورو رپورٹ + نوائے وقت رپورٹ) وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف بلوچستان اسمبلی سیکرٹریٹ میں تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے 48گھنٹوں بعد 25ارکان اسمبلی نے تحریک عدم اعتماد کی کھل کر حمایت کا اعلان کردیا، مسلم لیگ (ن) کے 7، مسلم لیگ ق کے4 ، جمعیت علماء اسلام (ف)کے8، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے 2، مجلس وحدت المسلمین کے1، عوامی نیشنل پارٹی کے1، نیشنل پارٹی کے1 اور 1آزاد امیدوار نے اب تک وزیراعلیٰ کی مخالفت کردی ہے۔ دو جنوری کو میر عبدالقدوس، سید آغا محمد رضا نے وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف بلوچستان اسمبلی سیکر ٹریٹ میں تحریک عدم اعتماد جمع کروائی تھی جس کے بعد بلوچستان کا سیاسی درجہ حرارت بڑھ گیا اور جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے دو دن گزرنے کے بعد 65میں سے 25ارکان نے کھل کر تحریک عدم اعتماد کی حمایت کردی ہے۔ حمایت کرنے والوں میں مسلم لیگ (ن) کے کل 21میں سے 7 ارکان جن میں میر سرفراز بگٹی ،سردار صالح محمد بھوتانی ،میر عامر رند ،میر غلام دستگیر بادینی ،سردار سرفراز ڈومکی ،پرنس احمد علی ،میر جان محمد جمالی ، مسلم لیگ (ق) کے کل 5میںسے4ارکان میرعبدالقدوس بزنجو، ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی ، میر عبدالکریم نوشیروانی ،میر امان اللہ نو تیزئی ،بلوچستان نیشنل پارٹی کے دونوں اراکین سردار اختر جان مینگل ،میر حمل کلمتی ،عوامی نیشنل پارٹی کے رکن انجینئر زمرک خان اچکزئی، مجلس وحدت المسلمین کے سید آغا رضا ،نیشنل پارٹی کے کل 11اراکین میں سے ایک رکن میر خالد لانگو ،آزاد رکن اسمبلی نوابزادہ طارق مگسی اور جمعیت علماء اسلام کے تما م 8اراکین جن میں اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع ،سردار عبدالرحمان کھیتران ،عبدالمالک کاکڑ ،خلیل الرحمن دمڑ، مولوی معاذ اللہ ، مفتی گلاب ،حسن بانو رخشانی ،شاہدہ رئوف شامل ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حکومتی اتحادی جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے اب تک کسی بھی رکن صوبائی اسمبلی نے تحریک عدم اعتماد کی حمایت نہیں کی۔ گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی نے بلوچستان اسمبلی کا اجلاس 9جنوری کو طلب کرلیا ہے اجلاس میں تحریک عدم اعتماد لانے والے ارکان اسمبلی کو تحریک کامیاب بنانے کے لئے رائے شماری میں 33ارکان اسمبلی کی حمایت درکار ہوگی۔ سابق وزیرداخلہ میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد ارکان صوبائی اسمبلی کا جمہوری و آئینی حق ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں اکثریت ہمارے ساتھ ہے ہم نے کوئی غیر آئینی و غیر سیاسی کام نہیں کیا ہے، تحریک عدم اعتماد کو سینٹ الیکشن اور مو جودہ ملکی صورتحال سے نہ جوڑا جائے۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن صوبائی اسمبلی سابق نگران وزیراعلیٰ بلوچستان سردار صالح محمد بھوتانی نے کہا کہ وزیراعلیٰ کا امیدوار نہیں ہوں تاہم ہم اصولوں کی سیاست کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بلوچستان میں سیاسی تعاون کے حصول کے لیے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے گھر پہنچ گئے۔وزراء کالونی میں مولانا کی اقامت گاہ پر دونوں رہنمائوں میں بلوچستان کی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر سیفران لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ بھی وزیر اعظم کے ساتھ تھے۔ وزیراعظم نے مولانا فضل الرحمن سے وزیراعلی بلوچستان ثناء اللہ زہری کیخلاف تحریک عدم اعتماد واپس لینے کی درخواست کی۔ ذرائع کے مطابق مولانا نے جواب دیا کہ تحریک عدم اعتماد صوبائی معاملہ ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر مشاورت کریں گے۔ صوبائی قیادت سے مشاورت کے بعد جواب دوں گا۔ اپنا گھر درست کریں ہم اپوزیشن ہیں۔ فضل الرحمن نے بعض معاملات پر اپنے تحفظات سے وزیراعظم کو آگاہ کیا اور بلوچستان حکومت بچانے کی صورت میں بعض شرائط رکھیں۔ ذرائع کے مطابق فضل الرحمن نے بلوچستان حکومت کے سیٹ اپ، نگران حکومت سے متعلق بھی شرائط پیش کیں اور فاٹا کا انضمام نہ کرنے سے متعلق حکومت سے مزید مضبوط یقین دہانی کا بھی مطالبہ کیا۔
اسلام آباد (محمد نواز رضا / وقائع نگار خصوصی) باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت صوبہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ ثناء اﷲ کیخلاف تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کیلئے سرگرم ہوگئی ہے۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے 8 ارکان کی فیصلہ کن حیثیت ہے وہ جس فریق کا ساتھ دیں گے وہ کامیاب ہوجائے گا۔ فضل الرحمٰن نے وزیراعظم کو کوئی واضح جواب نہیں دیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے جمعیت علماء اسلام (ف) وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی اتحادی جماعت ہے لیکن بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) اور نیشنل پارٹی و پختونخوا ملی پارٹی نے جمعیت علما کو اپوزیشن میں بٹھایا۔ اس وقت مولانا عبدالواسع قائد حزب اختلاف ہیں۔ جمعیت علماء اسلام کے 8 میں سے 4 ارکان نے تحریک عدم اعتماد پر دستخط کیے۔ اس وقت 27 ارکان نے تحریک عدم اعتماد کی حمایت کی ۔ اگر جمعیت علماء اسلام (ف) کے تمام ارکان تحریک عدم اعتماد کیلئے ووٹ دے دیں تو تحریک منظور ہونے کا امکان ہے۔ 65 ارکان کے ایوان میں حکومت کے ارکان کی تعداد مسلسل کم ہورہی ہے۔ مسلم لیگ ن کے مزید ارکان بغاوت کرسکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان کا مسلم لیگ ن کے صدر میاں نواز شریف اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے مسلسل رابطہ ہے۔