ملک پر ٹوٹنے والی افتاد زبانی جمع خرچ سے نہیں‘ مدبرانہ حکمت عملی سے ٹالنے کی کوشش کی جائے
دفتر خارجہ اور پاک فوج کے ترجمانوں کا امریکی اقدام پر سخت ردعمل اور امریکہ کا پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر بھی تحفظات کا اظہار
دفتر خارجہ نے امریکہ کی طرف سے پاکستان کو مذہبی آزادیوں کے حوالے سے واچ لسٹ پر رکھنے کے فیصلہ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام اور اسکے مضمرات کے بارے میں امریکہ سے وضاحت مانگی جائیگی۔ اس سلسلہ میں ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ حیرت کی بات ہے‘ ایسے ملک جو مذہبی اقلیتوں پر منظم ظلم و ستم کے حوالے سے مشہور ہیں‘ انہیں اس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا‘ اس سے امریکہ کے دہرے معیار اور فہرست کے پیچھے کارفرما سیاسی مقاصد واضح ہوتے ہیں اس لئے اس فیصلہ کی کوئی ساکھ نہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان عالمی برادری سے مل کر ملک کے اندر اور پورے خطے میں مذہبی آزادی کے بین الاقوامی معیار کو یقینی بنانے کیلئے کام کرتا رہے گا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی ان کامیابیوں کو نظرانداز کیا گیا جو اس نے مذہبی آزادیوں سمیت انسانی حقوق کے شعبہ میں حاصل کی ہیں۔ پاکستان اپنے ملکی دستور کے تحت مذہبی آزادیوں سمیت انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے پرعزم ہے۔ قبل ازیں دفتر خارجہ کی جانب سے پاکستان کی سکیورٹی امداد معطل کرنے کے امریکی فیصلہ پر انتہائی محتاط ردعمل کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ اس معاملہ پر ہم امریکی انتظامیہ سے رابطے میں ہیں اور ہمیں اس فیصلہ کی مزید تفصیلات کا انتظار ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف جنگ زیادہ تر اپنے وسائل سے لڑی ہے جس میں اسے گزشتہ 15 برس کے دوران 120‘ ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ ہم اپنے شہریوں کی حفاظت اور خطے میں استحکام کیلئے ایسا کرتے رہیں گے۔ ترجمان نے باور کرایا کہ دیرپا امن کیلئے کام باہمی احترام اور اعتماد کے ساتھ تحمل اور مستقل مزاجی سے ہی ہو سکتا ہے۔ امریکی فیصلے سے دونوں ممالک کے مشترکہ مقاصد پر اثرات پڑ سکتے ہیں۔
دوسری جانب پاک فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستان کبھی پیسے کیلئے نہیں بلکہ امن کیلئے لڑا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ سکیورٹی ضروریات پوری کرنے کیلئے سکیورٹی تعاون کے حوالے سے ہمارے آپشنز کھلے رہیں گے۔ انہوں نے باور کرایا کہ پاکستان نے حقانی نیٹ ورک سمیت دہشت گردوں کو بلاامتیاز نشانہ بنایا ہے۔ اس حوالے سے ہماری نیت پر شک کیا جانا مایوس کن ہے۔ پاکستان کو واچ لسٹ میں ڈالنا بدنیتی ہے۔ اسی طرح وزیر دفاع خرم دستگیر نے امریکی فیصلہ پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت حالات امریکہ کو اتحادی کہنے والے نہیں کیونکہ اتحادیوں کیلئے دھمکی آمیز زبان استعمال نہیں کی جاتی۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے بھی امریکی فیصلے پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی پالیسیوں میں تبدیلی پر سب کچھ داﺅ پر لگانا کہاں کی دانشمندی ہے جبکہ ٹرمپ نے آٹھ ماہ میں اپنی حکمت عملی بالکل تبدیل کردی ہے۔ انکے بقول نائن الیون کے بعد ہم نے سب کچھ داﺅ پر لگادیا مگر ہمیں کیا ملا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے تو درحقیقت امریکی صدر منتخب ہوتے ہی پاکستان اور مسلم دنیا کے حوالے سے اپنی پالیسی واضح کردی تھی جب انہوں نے حلف اٹھانے کے بعد قوم سے خطاب میں اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح استعمال کی اور باور کرایا کہ امریکہ کو سب سے زیادہ اس دہشتگردی سے خطرہ ہے جس کا انکے بقول مل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔ یہ پالیسی بلاشبہ کسی شخصیت یا جماعت کی نہیں بلکہ واشنگٹن انتظامیہ کی باضابطہ بن چکی ہے اس لئے پاکستان کیخلاف اٹھائے گئے اقدامات پر ٹرمپ کو ذہنی مریض قرار دینے سے امریکہ کی اجتماعی پالیسی پر کسی فرد واحد کی سوچ کا لیبل نہیں لگایا جا سکتا جیسا کہ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں ٹرمپ کے بیانات اور امریکی باضابطہ پالیسیوں میں فرق ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ امریکہ کی نگاہیں پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی پر ہیں جس کے بارے میں گزشتہ روز امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان ہیتھرنورٹ نے بھی تحفظات کا اظہار کیا اور اپنے بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کی امداد حافظ سعید جیسوں کیخلاف کارروائی نہ کرنے پر معطل کی گئی ہے۔ اس تناظر میں امریکہ کا اصل ٹارگٹ بادی النظر میں پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی ہے اور امریکہ میں چاہے ڈیموکریٹس برسراقتدار ہوں یا ری پبلیکنز‘ ان سے پاکستان کیلئے کسی خیرخواہی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ہمیں صرف اپنا گھر ٹھیک کرنے اور چیلنجوں کا قومی وقار و تشخص کی روشنی میں مقابلہ کرنےوالی لیڈر شپ کی ضرورت ہے جس کا اس وقت سخت فقدان ہے۔ امریکہ نے 1988ءمیں بھی اسرائیل اور بھارت کی معاونت سے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی جب محترمہ بے نظیر بھٹو پہلی بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئی تھیں۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ نے گزشتہ روز اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں اس امریکی سازش کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس سازش کی اطلاع ملتے ہی محترمہ بینظیر بھٹو نے بھارت کو پاکستان کے سفیر کے ذریعہ یہ ٹھوس پیغام دیا کہ اگر اس نے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کی کوشش کی تو اسکا جو حشر ہوگا وہ پوری دنیا دیکھے گی۔ جنرل اسلم بیگ کے بقول محترمہ بے نظیر بھٹو نے امریکہ‘ بھارت اور اسرائیل کی سازش کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے پاک فضائیہ کو بھی الرٹ رہنے کا حکم دے دیا تھا اور اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے بھی اس مبینہ سازش پر امریکہ کو دوٹوک جواب دیا تھا کہ پاک فوج بہرصورت دفاع وطن کے تقاضے نبھائے گی۔ انکے بقول مضبوط لیڈرشپ ہی ایسے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جبکہ آج دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنیوالی لیڈر شپ سے ہم محروم ہیں۔
یقیناً آج ہمیں ایسی ہی لیڈر شپ کی ضرورت ہے جو دہشتگردی کی جنگ میں ہمارے کردار کے حوالے سے واشنگٹن اور پینٹاگون کی غلط فہمیوں اور تحفظات پر انہیں حقائق و شواہد کی روشنی میں مطمئن کرسکے اور اس جنگ سے پاکستان کے نکلنے کی صورت میں ہونیوالے نقصانات کا احساس دلا سکے۔ یہ حقیقت ہے کہ افغان جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان نے ہی سب سے زیادہ نقصانات اٹھائے ہیں جس کی پوری دنیا معترف ہے اور گزشتہ روز ترک صدر رجب طیب اردوان نے بھی باور کرایا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل سمیت کسی بھی ملک کی پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قابل قبول نہیں ہوسکتی تاہم ملک کی سلامتی و خودمختاری اور قومی مفادات کے تحفظ کی سب سے زیادہ ذمہ داری تو ہماری سول اور عسکری قیادتوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔ اگر گزشتہ روز امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان کی جانب سے پاکستان کے جوہری اثاثوں پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے تو اس سے یہ واضح عندیہ ملتا ہے کہ امریکہ کی سوئی 1988ءسے اب تک پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی پر ہی اٹکی ہوئی ہے چنانچہ آج بھی 1988ءکی طرح ہماری ایٹمی تنصیبات امریکہ‘ بھارت‘ اسرائیل گٹھ جوڑ کے تحت خطرات میں گھری نظر آرہی ہیں تو اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے آج ہماری حکومتی قیادت کی جانب سے ویسا ہی ٹھوس اور دوٹوک جواب امریکہ‘ بھارت اور اسرائیل کو ملنا چاہیے جیسا محترمہ بے نظیربھٹو اور غلام اسحاق خان کی جانب سے 1988ءمیں دیا گیا تھا اور پھر ان ممالک کو پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کی سازش پر عملدرآمد کی جرا¿ت نہیں ہوئی تھی۔
اگر آج ملک میں ایسی قیادت موجود ہی نہیں اور ملک کی اندرونی کمزوریوں سے بھی تاک میں بیٹھے دشمنوں کو ہماری سلامتی پر شب خون مارنا آسان نظر آرہا ہے تو پھر ماسوائے اسکے اور کیا ہو سکتا ہے کہ کسی حیلے بہانے سے موجودہ افتاد کو ٹالنے کی کوشش کی جائے اور گیدڑ بھبکیوں کے بجائے دانشمندی کے ساتھ سفارتی کوششیں بروئے کار لا کر وطن عزیز کی جوہری ٹیکنالوجی کو بچایا جائے اور اسے عالمی اقتصادی پابندیوں کی زد میں نہ آنے دیا جائے۔ آج ملک کی کمزور لیڈر شپ کے باعث ہم پر عالمی اقتصادی پابندیاں عائد ہونگی تو پہلے سے ہی ڈگمگاتی ملکی معیشت کو سنبھالنا بہت مشکل ہو جائیگا۔ امریکہ نے پہلے ہی ہماری فوجی معاونت روک کر بھارت کے مقابلے میں ہمارا دفاعی حصار کمزور کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ امریکی تھپکی سے ہماری سلامتی کیخلاف بھارتی حوصلے اور بھی بلند ہوچکے ہیں۔ اگر اس صورتحال میں ہم عالمی اقتصادی پابندیوں کی بھی زد میں آگئے تو ہماری سلامتی کے درپے بھارت کیلئے ہماری خودمختاری اور سلامتی پر شب خون مارنے کا اس سے نادر موقع اور کوئی نہیں ہوگا۔ اس تناظر میں بہتر یہی ہے کہ سلیقے اور سلجھاﺅ کے ساتھ ”آئی“ کو ٹالنے کی کوشش کی جائے اور ادارہ جاتی کشیدگی ختم کرکے ملک میں اتحاد و یکجہتی کی فضا استوار کی جائے تاکہ دشمن کے عزائم کے مقابلہ میں اسے قوم کے سیسہ پلائی دیوار ہونے کا ٹھوس پیغام دیا جاسکے۔ اگر ہم خالی خولی خودداری اور قومی غیرت کا اظہار کرتے رہے اور وقت آنے پر عملاً کچھ بھی نہ کر پائے تو ہمارے لئے اس سے بڑی قومی ہزیمت اور کوئی نہیں ہوگی۔ ہمیں سانحہ¿ سقوط ڈھاکہ سے اب تک کچھ نہ کچھ سبق تو بہرصورت حاصل کرلینا چاہیے۔