نیب انتقامی کارروائی کا تاثر نہ پیدا ہونے دے!
سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپرز ملز کیس دوبارہ کھولنے کے حوالے سے نیب کی اپیل مسترد کرنے سے متعلق تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔ فاضل عدالت نے 15 دسمبر کو مختصر فیصلے میں نیب کی اپیل مسترد کی تھی۔ فاضل جج مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تفصیلی فیصلے میں قرار دیا ہے کہ حدیبیہ پیپرز ملز کیس کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کا اقدام درست تھا۔ ریفرنس کا مقصد شریف خاندان کو دباﺅ میں لانا تھا۔ انہیں قانونی حق سے محروم رکھا گیا۔ فیصلے کے مطابق ریاست کی تحویل میں موجود ملزمان کو جلاوطن کرنا جرم ہے۔ نیب نے انہیں جلاوطن کرنے والوں کیخلاف کارروائی نہیں کی۔ دریں اثنا چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کو نیب ہیڈ کوارٹر میں طلب کرکے حکم دیا ہے کہ شریف خاندان کیخلاف برطانیہ سے شواہد جلد اکٹھے کئے جائیں اور یہ کہ اس عمل میں کوتاہی برداشت نہیں کی جائیگی۔
حدیبیہ ریفرنس کا فیصلہ تو 15 دسمبر کو آ گیا تھا اب سپریم کورٹ کی طرف سے تفصیلی فیصلہ جاری ہونے سے وہ تمام وجوہات سامنے آ گئی تھیں، جن کی بنیاد پر اسے مسترد کیا گیا۔ حدیبیہ پیپرز ملز کیس، مشرف دور میں شروع ہوا تب بھی استغاثہ نے کیس کو مضبوط بنانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا حالانکہ ایسی شکایات بھی سامنے آئی تھیں کہ فرضی دستاویزات تیار اور شہادتوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی ہے۔ تاہم فاضل عدالت نے شریف خاندان کو اس کیس سے صاف بری کر دیا۔ اب حال ہی میں پانامہ کیس کھلا تو ساتھ ہی کچھ گڑے مردے بھی اکھاڑے جانے لگے۔ اسی ضمن حدیبیہ ریفرنس بھی دائر کر دیا گیا تاہم نیب کے اس اقدام کو عام طور پر پسند نہیں کیا گیا کہ ایک مقدمہ ڈیڑھ عشرہ پہلے جس کے ہر پہلو کی جانچ ہو چکی ہے تب استغاثہ پورا زور لگانے کے باوجود اسے ثابت نہ کر سکا تھا اب اس پر زور لگانے کی ضرورت کیوں پڑی۔ قدرتی طور پر یہ سوال بھی ابھرا کہ اب کون سے نئے شواہد سامنے آئے ہیں جن کی بنا پر انصاف کے تقاضے پورے کرنے کیلئے اسے دوبارہ کھولنا ضروری ہو گیا تھا۔ ہائی کورٹ میں دائر ریفرنس مسترد ہوا تو نیب نے اپنی کوششیں ترک نہیں کیں اور سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔ اس فیصلے سے یہ بھی عندیہ ملا ہے کہ نیب جس کے سامنے پہاڑ سے بھی بڑے کام توجہ طلب ہیں، اپنا وقت، توانائیاں اور صلاحیتیں، مردوں کو زندہ کرنے میں لگا ہوا ہے۔ بہرکیف احتساب کا کام اس طرح ہونا چاہئے کہ انتقامی کارروائی کا تاثر پیدا نہ ہو۔ اگر دو چار مقدموں کا اسی طرح انجام ہوا، تو پھر نیب کی ساکھ بری طرح متاثر ہو گی‘ عوام کی مایوسی میں اضافہ ہو جائے گا‘ وہ سمجھیں گے کہ یہاں اصل اور بڑے چور قانون کے شکنجے میں کبھی نہیں آپائیں گے۔