• news
  • image

امریکی صدر ٹرمپ بمقابلہ پاکستانی عوام اور ماہنامہ کتاب

عمران خان نے امریکی صدر ٹرمپ کا غصہ وزیراعظم خاقان عباسی پر نکالا ہے۔ وہ کہاں چھپ کے بیٹھا ہے؟ اس حوالے سے عمران خان نے آصف زرداری کے جرات مندانہ ردعمل کی تعریف کی ہے۔ عمران خان نے یہ بھی کہا ”پاکستان کی توہین ناقابل برداشت ہے۔ پاکستان اب چین، روس، ایران سے مل کر نئی راہیں تلاش کرے۔ یہ بات بہت دلچسپ ہے کہ صدر ٹرمپ کو امریکی بھی سیریس نہیں لیتے تو امریکیوں نے ٹرمپ کو مننتخب کیوں کیا؟ لگتا ہے وہ بھی پاکستانی ووٹرز کی طرح بنتے جا رہے ہیں۔ آج تک یہاں ایسا آدمی منتخب نہیں ہوا جو پاکستان کو ایک قابل ذکر قابل احترام قوم بنا دے۔
برادرم حامد میر نے بڑی آسانی اور دھڑلے سے ایک پروگرام میں باتیں کیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ امریکہ کی ایک بات مان لیں گے تو وہ دو اور مطالبے کر دے گا۔ دو مان لیں گے تو وہ چار مطالبے اور کر دے گا۔ یہ جملہ حکمرانوں کے لیے قابل غور ہے کہ ہم امریکہ سے روابط رکھیں مگر امریکی امداد کے بغیر زندہ رہنا سیکھیں۔ پاکستان کے لوگ ہر حال میں جینا سیکھ چکے ہیں۔ کوئی حکمران فیصلہ تو کرے۔ فیصلہ فیصلہ کن ہونا چاہیے۔ میرے خیال میں اب پاکستان کو ایک زندہ قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا ہو گا۔ ہمیں یہ کون بتائے گا کہ وقار کے ساتھ زندہ رہنا کیا ہوتا ہے؟
پاکستان میں صدر ٹرمپ کے خلاف باتیں ہو رہی ہیں۔ اس ردعمل میں حکام اور عوام کے لہجوں میں فرق ہے۔ یہ کب ہو گا کہ کسی حکمران کے قول و فعل سے یہ لگے گا کہ پاکستان بول رہا ہے۔ ہم اس کے لیے ایک بہت شاندار واحد لیڈر قائداعظم کی ریکارڈنگ سنتے ہیں اور مزید پریشان ہو جاتے ہیں۔ مادر ملت نے بھی پاکستان کی فضاﺅں میں ایک لالٹین جلائی تھی جس کی روشنی اب تک ہم اپنے دلوں میں تڑپتے دیکھتے ہیں۔ اب تاریکیاں ہماری ہمسفر بن گئی ہیں۔ اب کون وہ لالٹین جلائے گا جو مادر ملت کے ہاتھوں میں تھی۔ ان کی مصنوعی شکست ہماری شکست خوردگیوں میں اضافہ کرتی رہتی ہے۔
اس دوران کراچی میں اساتذہ کے جائز مظاہرے میں پولیس کے شیر جوانوں نے زبردست لاٹھی چارج کیا جس کا نوٹس ”صدر“ آصف زرداری نے لے لیا۔ نجانے یہ نوٹس کیا ہوتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے صرف نوٹس لینے کو حکومت کا واحد فریضہ سمجھ لیا ہے۔ مگر زرداری صاحب تو اب حکمران نہیں ہیں۔ ایوان صدر اور بحریہ ٹاﺅن کے گھر میں ایک ہی زرداری کو دیکھا۔ پچھلے ایک سال میں سینکڑوں نوٹس لیے گئے مگر ان کا حشر وہی ہوتا ہے جو کالجوں اور تعلیمی اداروں میں لگے نوٹس بورڈ پر چپکائے ہوئے نوٹس کا ہوتا ہے۔
یہ عجیب ملک ہے جہاں سب سے زیادہ قابل احترام لوگوں پر وحشیانہ لاٹھی چارج ہوتا ہے۔ یہ ٹیچرز وزیراعلیٰ سندھ کے گھر تک پہنچ جاتے تو کیا ہو جاتا۔ کبھی تو یہ ہونے دیں۔ لگتا ہے۔ وہ حکمران بن کر خاص آوازیں ہی سنتے ہیں۔
کہتے ہیں مغرب میں سب سے زیادہ محترم مخلوق ٹیچر ہے۔ کسی عدالت میں جج صاحب کے آنے کے بعد کوئی نہیں آ سکتا۔ مگر کسی ٹیچر کو کوئی نہیں روک سکتا۔ وہ عدالت میں داخل ہو تو جج بھی احترام میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ یہ اعلان ہوتا ہے ”ٹیچر ان کورٹ“
کراچی میں اساتذہ پر اس مہارت اور غصے سے لاٹھی چارج کیا گیا کہ وہ حیران رہ گئے۔ اس حیران ہونے کو پریشان ہونا کہنا چاہئے۔
ہم حیران ہونا بھول چکے ہیں۔ صرف پریشان ہونا ہماری قسمت ہے جسے بدقسمتی کہنا چاہئے۔ ہمارے ملک میں لیڈی ٹیچرز پر لاٹھی چارج کیا جاتا ہے۔ ایسے میں پولیس کے شیر جوان زیادہ پھُرتیاں دکھاتے ہیں اور پھر باقاعدہ ڈسکس کرتے ہیں۔ معذرت کے ساتھ ایک مکالمہ پیش کرتا ہوں۔ وہ نیلے دوپٹے والی خاتون کو میں نے لاٹھی ماری تو وہ گر پڑی۔ میں نے اسے اٹھنے میں مدد کی۔ اس نے میرا شکریہ بھی ادا کیا۔
مجھے اسلام آباد نیشنل بک فا¶نڈیشن کی طرف سے ایک رسالہ ملا ہے۔ ماہنامہ ”کتاب“ فا¶نڈیشن کے مینجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر انعام الحق جاوید ہیں۔ رسالہ ماہنامہ ”کتاب“ کے ایڈیٹر بھی وہی ہیں۔ میں کچھ مدت پہلے اسلام آباد گیا تو ممتاز شاعرہ اور اہم ادبی شخصیت عائشہ مسعود بھی میرے ساتھ تھیں۔ فا¶نڈیشن کے دفتر میں جا کے ہمیں اچھا لگا۔
اداریے میں ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے لکھا ہے کہ اس سال مشیر وزیراعظم پاکستان برائے قومی تاریخ و ادبی ورثہ جناب عرفان صدیقی کی ہدایات کی روشنی میں ملک میں جاری 70 سالہ جشن آزادی تقریبات کے سلسلے میں نیشنل بک فا¶نڈیشن کی ملک بھر میں موجود 24 بک شاپس (آ¶ٹ لیٹس) پر کتاب میلوں کا آغاز کیا گیا۔
وہاں فا¶نڈیشن کے دروازے کے ساتھ ایک جگہ پر کچھ کتابیں نظر آئیں۔ بتایا گیا کہ کوئی اگر چاہے تو یہاں اپنی کوئی اضافی کتاب رکھ دے اور جو کتابیں یہاں موجود ہیں ان میں سے کوئی ایک لے بھی جائے۔ کئی لوگ ایک سے زیادہ کتابیں بھی لے جاتے ہیں۔ انہیں پوچھا نہیں جاتا۔ اس طرح کتاب دوستی کی ایک نئی صورت سامنے آئے گی۔ عرفان صدیقی کی رہنمائی ڈاکٹر انعام الحق جاوید کے لئے ایک نعمت کی طرح ہے۔ ڈائریکٹر این بی ایف لاہور نزہت اکبر نے ایک تحریر میں کہا کہ این بی ایف کا نعرہ ”ہمارا خواب ہر ہاتھ میں کتاب“ ایک تحریک بنتا جا رہا ہے۔
بے نیازیاں

epaper

ای پیپر-دی نیشن