پاکستان کا افغانستان میں امریکہ کی سپلائی روکنے پر غور
اسلام آباد (شفقت علی / دی نیشن رپورٹ+ این این آئی) امریکی روئیے کے پیش نظر پاکستان نے افغانستان میں موجود امریکی اور نیٹو افواج کی سپلائی روکنے پر غور شروع کر دیا، دی نیشن کے مطابق وزارت خارجہ کے سینئر اہلکاروں کے مطابق فی الحال اس آپشن پر غور کیا جا رہا ہے۔ تاہم ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ سول اور عسکری حکام اس آپشن پر مشاورت کر رہے ہیں اور اس حوالے سے جلد کوئی فیصلہ کر لیا جائے گا۔ اہلکار کا کہنا تھا کہ پاکستان یہ آپشن استعمال کرکے امریکہ کو بہتر جواب دے سکتا ہے۔ واضح رہے کہ کابل میں امریکی فوج کی خوراک اور دیگر فوجی ساز و سامان پاکستان کے ذریعے جاتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستانی حکومت پر اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے بھی امریکہ کے اقدام کا سخت جواب دینے کے لئے دبائو ہے جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ اپنے وسائل سے لڑا۔ اس حوالے سے امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کا بیان بھی سامنے آیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے نیٹو سپلائی بند کرنے کے حوالے سے ابھی کوئی اشارہ نہیں دیا۔ انہوں نے اس بات کا بھی حوالہ دیا افغانستان میں امریکی جنرل جوزف وٹل نے حال ہی میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ٹیلی فون کرکے اس حوالے سے بات کی ہے۔ ایک اور اہلکار کا کہنا تھا کہ امریکہ سپلائی کے لئے دیگر روٹس پر بھی غور کر رہا ہے تاہم پاکستان کے ذریعے سپلائی انتہائی آسان اور سستا ذریعہ ہے۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی طرف سے پاکستان پر امریکہ کی سپلائی بند کرنے کے لئے زور ڈالا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت اس حوالے سے فیصلہ کرنے سے پہلے تمام پارٹیوں سے مشاورت کرے گی اور اس کے لئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جلد بلائے جانے کا امکان ہے۔ ایک وفاقی وزیر کے مطابق اس حوالے سے ایک متفقہ فیصلہ لینا قومی حمیت کے لئے ضروری ہے۔ تجزیہ کار ڈاکٹر فاروق حسنات کے مطابق امداد معطل کرنے کا ٹرمپ کا فیصلہ درست نہیں۔ این این آئی اور نوائے وقت رپورٹ کے مطابق امریکہ میں پاکستان کے سفیر اعزاز چودھری نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ سی ایس ایف فنڈ کی مد میں ایک ارب ڈالرز کا امریکہ پاکستان کا مقروض ہے، اگر امریکہ نے حساب کرنا ہے تو پورا کیا جائے۔ امریکہ کی خاطر پاکستان کا مغربی فضائی کوریڈور بند ہے، انہوں نے کہاکہ امریکہ کی سپلائی آج بھی پاکستان کے راستے سے ہورہی ہے۔ پاکستانی سفیر نے کہاکہ سی ایس ایف فنڈ کی مد میں ایک ارب ڈالر کا امریکہ پاکستان کا مقروض ہے، اگر امریکہ نے حساب کرنا ہے تو بھرپور کیا جائے۔ امریکہ نے اب تک آٹھ ارب ڈالرز سکیورٹی کی مد میں دیئے ہیں، امریکہ نے اب تک گیارہ ارب ڈالرز معاشی سیکٹر کی مد میں دیئے ہیں، امریکہ نے اب تک ساڑھے چودہ ارب ڈالرز کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں دیئے ہیں۔ افغانستان میں اتحادی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل کون فاکنر نے بتایا کہ افغانستان نیشنل ڈیفنس سکیورٹی فورسز کی تربیت اور مشن میں معاونت کے لیے فوجی ساز و سامان کی مسلسل ترسیل کے لیے متعدد منصوبے تیار کر رکھے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان طریقوں میں چارٹر طیاروں کے ذریعے سامان کو پہنچانا بھی شامل ہے۔ اعزاز چودھری نے کہا امریکی انتظامیہ نہیں لیکن کانگرس کا ایک حلقہ چین کے ساتھ پاکستان کی قربت کا سوال اٹھاتا ہے پاکستان کیلئے چین اور امریکہ دونوں کی دوستی اہم ہے۔ امریکہ غلط الزام لگا رہا ہے کہ پاکستان طالبان کو پناہ دے رہا ہے۔ طالبان اور حقانی گروپ کو پیغام دیا ہے کہ وہ سیاسی عمل میں شامل ہوں امریکہ سے کہہ دیا ہے کہ افغانستان میں بھارت کا سکیورٹی کردار ہمیں قبول نہیں۔ امریکی حکومت نے سی پیک پر باقاعدہ اعتراض نہیں کیا۔ فلسطین کے معاملے پر پوری دنیا ایک طرف ہے اور امریکہ ایک طرف۔ طالبان قیادت کا بیشتر حصہ افغانستان منتقل ہو چکا ہے۔ امریکہ نے طالبان سے متعلق اپنے الزام کے کبھی شواہد نہیں دیئے۔ تعلقات خراب کرنے کا نقصان صرف پاکستان نہیں امریکہ کا بھی ہو گا۔ حافظ سعید کا نام اقوام متحدہ کی لسٹ میں ہے جس کی پابندی ہم پر لازم ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کی سکیورٹی امداد بند کرنے کے فیصلے کے باوجود پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے فوری جوابی کارروائی کی بجائے سیاسی و فوجی سفارت کاری کے ذریعے معاملات بہتر بنانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں تاہم سول حکومت کے جارحانہ بیانات جاری رہینگے۔
اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) پاکستان اپنی تینوں مسلح افواج کیلئے ہتھیاروں اور آلات کی خریداری و تیاری کو امریکہ کے بجائے چین، ترکی، جنوبی کوریا، جنوبی افریقہ اور روس کی منڈیوں میں منتقل کر چکا ہے۔دفاع و سلامتی کے شعبہ میں امریکہ کی امداد،پاکستان کی مجموعی دفاعی تیاریوں میں اب کلیدی عنصر نہیں، تاہم سلامتی کے شعبہ میں امداد کی مکمل بندش، پاکستان کی جدید ترین ملٹری ٹیکنالوجی تک رسائی کو محدود کرے گی اور پہلے سے موجود ہتھیاروں کے امریکی نظاموں کی مرمت، فالتو پرزہ جات اور دہشت گردی کے خلاف جدید آلات کا حصول متاثر ہو گا۔جواب میں پاکستان ، امریکہ کے ساتھ انتیلیجنس تعاون اور مغربی فضائی راہداری کو محدود کر سکتا ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق سلامتی کے شعبہ میں امریکہ کی طرف سے پاکستان کیلئے امداد کی بندش کے کلی مضمرات کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے، تاہم یہ فیصلہ پاکستان کیلئے زیادہ پریشان کن نہیں کیونکہ پاکستان نے بروقت چین کے اشتراک سے تیار طیارے جے ایف 17 تھنڈر کو پاک فضائیہ کی ریڑھ کی ہڈی بنا دیا ہے۔ اس طیارے کا بلاک تھری، پاکستان کی آئندہ فضائی جنگ کی ضروریات پوری کرنے میںاہم کردار ادا کرے گا۔ چوتھی جنریشن کے طیارہ کے حصول کیلئے بیک وقت چین اور روس سے بات چل رہی ہے جبکہ پانچویں جنریشن کی طیارہ سازی کیلئے ویژن تیار کر لیا گیا ہے۔ بحریہ کیلئے امریکہ نے پاکستان کو پرانا چارلی کلاس فریگیٹ فراہم کیا تھا تاہم نگرانی اور جاسوسی کے امریکی جہاز پی تھری سی اورین بحریہ کا اصل اثاثہ ہیں ۔ چینی ساختہ نگرانی کے نظام کو اس استعداد کا حامل ہونے میں وقت لگے گا۔ بری فوج کے ایوی ایشن کے شعبہ کیلئے امریکی کوبرا گن شپ اور بیل یوٹیلٹی ہیلی کاپٹر فضائی بیڑے کا حصہ ہیں لیکن امریکہ ایف سولہ کی طرح گن شپ ہیلی کاپٹروں کی فروخت بھی روک چکا ہے جس کے بعدپاکستان روس سے چار عدد ایم آئی ۔ 35لڑاکا ہیلی کاپٹر خرید چکا ہے اور ایم آئی 29 ہیلی کاپٹروں کے سودے کی ابتدائی بات چیت جاری ہے۔ چین اور روس کے عروج کے باوجود امریکہ اب بھی دنیا کی اکلوتی سپر پاور ہے جسے دنیا بھر میں وسیع تر سیاسی، سفارتی، فوجی اور معاشی رسوخ حاصل ہے اس لئے پاکستان حتی ا لامکان یہی کوشش کرے گا کہ سلامتی کے شعبہ میں امداد کی بندش کے باوجود دو طرفہ تعلقات میں بگاڑ بہت زیادہ نہ بڑھے لیکن یہ ممکن نہیں کہ اب امریکی ڈکٹیشن کو پاکستان قبول کرے۔ ڈکٹیشن بھی کیا؟ حقانیوں کو مارو یا ہمارے حوالے کرو، پاکستان کا جواب ہے کہ حقانی منظم شکل میں یہاں موجود نہیں۔ جو بھی یہاں موجود ہے، اسے افغانستان میں دھکیلیں گے، افغان اور امریکی ان سے خود نمٹیں۔ ایک ڈکٹیشن یہ بھی ہے کہ خطہ میں اور بطور خاص افغانستان میں بھارت کا قائدانہ کردار تسلیم کیا جائے جو ممکن نہیں۔ اور ایک نصیحت یہ ہے کہ بھارت، پاکستان کا دشمن نہیں۔ اس ذریعہ کے مطابق ملٹری ٹیکنالوجی کے متعدد شعبوں میں چین، امریکہ کے ہم پلہ ہو رہا ہے جس کا پاکستان کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ امریکہ نے خود اپنے ہاتھوں سے پاکستان کو گنوایا ہے۔ چین کے بعد روس کے ساتھ دفاع و سلامتی کے شعبہ مین پاکستان کا تعاون بڑھ رہا ہے۔ گزشتہ برس روس کے ایک دور افتادہ کوہستانی علاقہ میں پاک روس مشترکہ فوجی مشقیں ہوئیں۔ دوستی2017‘‘ نامی ان مشقوں میں دونوں ملکوں کے سپیشل دستے انسداد دہشت گردی کے آپریشن اور پہاڑی علاقوں میں کارروائی کی بائیس سے زائد مشقیں کی گئیں۔ ایک جانب،پاکستان پر جدید ٹیکنالوجی کے دروازے بند کئے جا رہے ہیں تو دوسری طرف بھارت پر تمام تر دروازے کھول دیئے گئے ہیں۔ امریکہ اور روس کے بعد اسرائیل ، بھارت کو ہتھیار، فوجی سازو سامان فراہم کرنے والا تیسرا بڑا ملک بن چکا ہے اور اس دفاعی تعاون میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان یہ تعاون دفاع تک محدود نہیں بلکہ یہ دفاعی پیداوار، سلامتی اور انٹیلی جنس تعاون کے شعبوں تک پھیل چکا ہے جو براہ راست پاکستان کی سلامتی کیلئے ایک بڑے خطرہ کا روپ دھار چکا ہے۔ بھارت اسرائیل دو طرفہ تعلقات کا دائرہ دفاع، تجارت، سفارتکاری،انفارمیشن ٹیکنالوجی،پانی کے بندوبست ، زراعت، انٹیلی جنس تعاون اور سلامتی کے شعبوں میں تعاون پر محیط ہے۔ اس وقت بھارت اور اسرائیل کے درمیان سالانہ ایک ارب ڈالر کے دفاعی سودے ہو رہے ہیں جن میں اضافہ ہو گا۔جو امر پاکستان کیلئے باعث تشویش ہو گا وہ یہ کہ آئندہ برسوں میں مذکورہ فوجی سازوسامان کا بیشتر حصہ باہمی اشتراک کے منصوبوں کے تحت بھارت میں ہی تیار کیا جائے گا۔