امید!
امید پر دنیا قائم ہے ، یہ وہ بات ہے جس پر ہم پاکستانی جئے جاتے ہیں۔ ہمارا حسن ظن اسی ’’امید پر دنیا قائم ہے‘‘ کے فلسفہ پر شباب پر رہتا ہے۔ امید کا دامن ضروری بھی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ، جن آنکھوں میں امید کے دیپ جلتے ہیں کیا وہ آنکھیں کبوتر کی طرح بند بھی کرنی چاہئیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر گز نہیں، یہ دو الگ باتیں ہیں امید کی شمع آنکھوں میں فروزاں رکھنا ایک بات ہے۔ اور کبوتر کی طرح حالات و واقعات کی بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لینا دوسری بات ہے۔ لہٰذا ایک وقت میں ایک کام ہو سکتا ہے، آنکھیں کھلی رکھیں یا بند! ورنہ آپ بھی پکاریں گے کہ ؎
آرزو حسرت اور امید شکایت آنسو
اک ترا ذکر تھا اور بیچ میں کیا نکلا
کئی سالوں سے امریکہ میں مقیم ایک دوست سے بات ہو رہی تھی۔ میں مشتاق تھا کہ موضوع بحث ٹرمپ رہیں۔ لیکن وہ اس بات کی جانب کم آ رہے تھے ، ان کا موضوع عمران خان تھا۔ میں بات ٹرمپ سے شروع کرتا وہ بات عمران خان پر ختم کر دیتے۔ میں 2018ء کے طلوع آفتاب کے ساتھ ہی سوشل میڈیا کے آسمان پر نمودار ہونے والے ٹرمپ کے اس ٹویٹ کا تذکرہ کرتا جس میں اس نے پاکستان کو عجیب و غریب انداز میں ’’ہیپی نیو ایئر‘‘ کہا۔ لیکن ہمارا امریکہ میں مقیم دوست اور وہ دوست جس کی براہ راست پاکستان میں دلچسپی بھی کم ہے، محض اتنی ہے کہ اس کے رشتہ دار یہاں پر ہیں وہ ٹرمپ کو سنجیدگی سے لینے کے لئے تیار ہی نہیں تھا، اس کی سنجیدگی بھی عمران خان تک محدود تھی۔ اس کی اس ادا کو دیکھ کر مجھے ایک مغربی صحافی کا واقعہ یاد آ گیا وہ واقعہ جو اس نے پاکستان سے واپس جا کر اپنے اخبار میں بیان کیا۔
وہ لکھتا ہے کہ 7فروری 1987ء کو ککری گرائونڈ کراچی کا منظر قابل دید اور قابل غور تھا۔ ہر طرف لوگ فرط جذبات کا بحر بیکراں بنے ہوئے تھے۔ شاداں و فرحاں یہ لوگ تو اپنی شاد مانی کے نشہ میں تھے لیکن میں یہ سوچ رہا تھا کہ وہ بے نظیر بھٹو جو ان کارکنان کی امیدوں کا مرکز ہے، اگر وہ ان کارکنان کی امیدوں پر پوری نہ اتر سکی، تو کیا ہو گا؟ یہ بے نظیر بھٹو کی شادی کی تقریب تھی جس میں مہمانوں کی آمد کو اوپن رکھا گیا تھا، گویا لوگ اس لیڈر کی خوشی میں خود ہی صدق دل سے شامل اور دعا گو تھے ۔ خیر یہ تھا ایک سوال اس صحافی کا جو اپنے زاویے سے سوچ رہا تھا تا ہم بعد ازاں جو ہوا سو ہوا یہ سب جانتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو 1988ء میں الیکشن جیت کر دنیا کی پہلی مسلمان خاتون وزیر اعظم بن گئیں۔ میاں نواز شریف کی مہربانیوں اور کسی حد تک بی بی کی ٹیم کی ناعاقبت اندیشیوں کے سبب بی بی نے جو بیڑا اٹھایا اس میں وہ کامیاب نہ ہو سکی۔ دوسری دفعہ پھر1993ء میں بی بی دوبارہ وزیر اعظم بنیں تو ایک دفعہ پھر میاں نواز شریف کامیاب ہو گئے بے نظیر بھٹو حکومت پھر ختم ہو گئی دونوں دفعہ اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کا ساتھ ہی نہیں، بھر پور ساتھ دیا۔ اور بے نظیر بھٹو نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک لمبی جدو جہد کے بعد کامیابی حاصل کی تھی۔ وہ دونوں دفعہ بیک وقت میاں نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کو تو شکست دینے میں کامیاب ضرور ہو گئی لیکن وہ امیدیں جو کارکنان نے بھٹو کی پھانسی کے بعد اس سے باندھ رکھی تھیں وہ امیدیں جو اس کی شادی کی تقریب پر چہروں پر عیاں تھیں، وہ سبھی امیدیں اس کے وزیر اعظم بننے کے بعد ’’دانستہ و نا دانستہ‘‘ پوری نہ ہو سکیں۔ نہ کسی کو کپڑا اور مکان ملا نہ سوشل سٹیٹ!
اب میں جو دیکھتا ہوں ویسی ہی امیدیں اور تمنائیں پاکستان کے ایک دھڑے نے عمران خان سے وابستہ کر لی ہیں۔ اور یہ درست بھی ہے، عوام سیاسی قیادت سے امیدیں نہ رکھیں تو کس سے رکھیں ؟ کچھ امیدیں تو اس اشرافیہ کی ہیں جو ہر چڑھتے سورج سے رکھی جاتی ہیں یعنی لوگ پی پی پی کو چھوڑ کر تحریک انصاف مں آ گئے تا کہ عمران خان کے ٹکٹ پر جیت کر ایوان انجوائے کر سکیں۔ پھر نوجوانوں کی عمران خان سے بہت امیدیں ہیں کہ وہ پی پی پی اور ن لیگ کی طرح کرپشن نہیں کریں گے۔ پھر میرے امریکہ میں مقیم دوست کی بھی کچھ خواہشات ہیں، ایسے ہی دیار غیر میں مقیم لوگوں کی بھی۔ یہ دوست بھی ہمارے متعدد صحافی دوستوں کی طرح ذوالفقار علی بھٹو کو لیڈر ماننے والا ہے اور اس کے بعد بے نظیر بھٹو کا بھی کافی حد تک قائل تھا تا ہم اب اس کی امیدیں اور تمنائیں عمران خان کی جانب شفٹ ہو چکی ہیں، لہٰذا عمران خان بے شمار جیالوں کی امیدوں کا نیا مرکز بھی ہیں اور میں ان دنوں مسلسل سوچ رہا ہوں کہ عمران خان بھی ان لوگوں کی امیدوں پر پورا نہ اتر سکے تو کیا ہو گا؟ … کیا ہو گا؟
بس اب لوگوں کے بار بار دل ٹوٹتے دیکھے نہیں جاتے ۔ لیکن عوام بھی عجیب رومانس رکھتے ہیں، اس کی مثال کچھ یوں ہے کہ ، ہم اپنی پسندیدہ پارٹی اور محبوب لیڈر کے سامنے دل کے ہاتھوں یا پھر خواہشات کے ہاتھوں مجبور ہو جاتے ہیں۔ وہ سیانے کہتے ہیں تا ہم اپنی غلطیوں کے وکیل اور کسی کی غلطیوں پر جج بن جاتے ہیں۔ ایسا ہی ہم سیاسی ’’ شعور‘‘ کی دہلیز پر کرتے ہیں امیدیں ہی وابستہ نہیں کرتے اپنی سیاسی پارٹی کو جذبات کا مسلک بنا کر اس کا احتساب اور حساب کتاب بھی چھوڑ دیتے ہیں بس سیاسی لیڈر بھی پارٹی پر آمر لگ جاتا ہے۔ وضاحت یوں ہے کہ اگر ہمارا کک دو چار دفعہ کھانا خراب بنا دے اسے معاف نہیں کرتے، معاف کر بھی نہیں سکتے لیکن وہی کھانا زوجۂ عالیہ ہزار دفعہ خراب کر دے تو اسے دس ہزار دفعہ کھانے کا خون معاف ہے۔ پھر بھی اس کی مرضی کھانا پکانا سیکھ لے یا نہ سیکھے ، حالانکہ وہی کھانا بنانا چوتھی پانچویں بار خراب کرنے کے بعد کک نے تو سیکھ ہی جانا تھا مگر نہیں…! یہ گھر کا معاملہ ہے یہاں ملازم کو ملازم اور بیوی بیوی ہی ہونا چاہئے۔ بیوی کو کھانا پکانے اور جلانے سے روکنا غلط ہے لیکن ہم یہی معاملہ جب سیاست میں لے جاتے ہیں اور مخالف پارٹی کے لیڈران کو کک کی سزا دیتے ہیں اور اپنے لیڈر کو محبوب کی جزا دیتے ہیں تو گڑ بڑ ہو جاتی ہے۔ سڑک پر ریل گاڑی اور پٹڑی پر کار نہیں چلائی جا سکتی، لیکن ہم پاکستانی ہیں، کوشش تو کر سکتے ہیں نا؟
المختصر ہم مجبور ہیں امیدیں وابستہ بھی نہ کریں تو کیا کریں؟ امیدیں تو میاں نواز شریف سے بھی بہت وابستہ کیں، امیدیں تو امریکہ سے بھی ہمیشہ باندھی رکھیں، امیدیں تو اب چین سے بھی بہت ہیں۔ معاشی امیدوں کا مرکز سی پیک کو بھی بنا رکھا ہے۔ ختم ہے بھئی، ہم پر امیدیں وابستہ کرنا ختم ہے۔ ہم کوئی موقع جانے نہیں دیتے، ویسے میں تو بہت خوش ہوں چلیں ٹرمپ نے ہماری نئے سال پر امداد بند کر کے اور ہمیں برا بھلا کہہ کر ہمارے کشکول کو ٹھوکر تو ماری، شاید ہمیں کچھ سمجھ آ جائے۔ اگر ہم نے کشکول کو پیڈ سٹل فین کے منہ کی طرح گھومنے والا نہ کر لیا۔
ماضی میں مجھے بھی عمران خان، میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو سے امیدیں بہت تھیں، خیال تھا کہ پی پی کسانوں اور غریبوں کی ہمدرد ہو گی لیکن خواب ریزہ ریزہ ہوا۔ امید تھی عمران خان کو کرپشن پسند نہیں ہو گی لیکن یہ وہ لاڈلا نکلا جسے کرپشن تو واقعی پسند نہیں مگر کرپٹ لوگ بہت پسند ہیں جو آ جائے بسم اللہ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ رانا ثناء اللہ (اللہ نہ کرے) یا احسن اقبال پی ٹی آئی میں آ جائیں تو عمران خان فردوس عاشق اعوان اور بابر اعوان کی طرح انہیں بھی ولی اللہ کا پروٹوکول دے گا۔ مجھے میاں نواز شریف سے امید تھی کہ یہ صحت اور تعلیم کا قبلہ آخر تیسری بار ضرور درست کریں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ان کے پسندیدہ لوگ انہیں اپنی نظر سے دیکھتے ہیں۔ بین الاقوامی تناظر یا حقیقی کسوٹی پر نہیں ، فی زمانہ تعلیم اور صحت کا حکومت نے جو بیڑہ غرق کیا ہے۔ یہ نا قابل بیان ہے، اگر لوگ اس تعلیم اور صحت کا موازنہ پتھر کے دور یا ایتھوپیا سے کرنا چاہتے ہیں تو ان کی مرضی باقی یہ کمپیوٹر کا دور ہے۔ مرکز کے سبھی گورنرز بحیثیت چانسلر سبھی صوبوں میں ناکام نہیں انتہائی ناکام ہیں۔ پنجاب کا یہ عالم ہے کہ ہائر ایجوکیشن کی شہباز شریف کی ساری کاوشیں ان کے وزیروں اور مشیروں نے خاک میں ملا دیں، اکیلا شہباز شریف کیا کرے۔