پیر ‘ 19 ؍ ربیع الثانی 1439ھ‘ 8 ؍ جنوری2018 ء
وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا خطرہ بڑھ گیا۔ ایک اور وزیر نے استعفیٰ دے دیا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان میر ثناء اللہ زہری کے ستارے اچانک سیدھا چلتے چلتے نجانے کیوں الٹا چلنے لگے ہیں۔ حکومت کے آخری دور میں ایسی کیا آفت ٹوٹ پڑی کہ ایک مضبوط مستحکم حکومت کو لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ یہ بلوچستانی سیاست کی بدقسمتی ہے کہ وہاں نوابوں، خانوں‘ میروں اور مولویوں نے گٹھ جوڑ کر رکھا ہے۔ کیا مجال ہے کہ ان کے علاوہ کوئی خالص سیاسی کارکن آگے آ سکے۔ خواہ قدامت پرست مولوی ہوں جدت پسند لبرل یا آزاد خیال کامریڈ سب ایک ہی رنگ میں رنگے نظر آتے ہیں۔ اپنی ناک آگے کچھ نہیں دیکھتے، قوم پرست ہوں یا مذہب پرست سب اپنے دائرے میں گھومتے ہیں، جو مفادات کا چکر کہلاتا ہے۔ عوام الناس اور صوبے کی حالت آج بھی وہی ہے جو برسوں پہلے تھی۔ اربوں کھربوں روپے کے فنڈز جاری ہوتے ہیں مگر ترقیاتی کام دیکھیں تو رونا آتا ہے۔ ان حالات میں نوابی کا مزاج اپنا ہوتا ہے، جہاں سارے ہی خان، میر اور نواب ہوں وہاں کسی کی کون سنتا ہے۔ اب باغی ایم پی اے 40 سے 50 کروڑ فنڈ مانگ رہے ہیں اپنی وفاداری کے عوض کیونکہ انہوں نے آئندہ الیکشن کا خرچہ بھی نکالنا ہے۔ دیکھتے ہیں وزیراعلیٰ یہ مطالبہ پورا کرتے ہیں یا نہیں۔ میر سرفراز بگٹی کو سب جانتے ہیں اندرون خانہ بااثر حلقوںکی حمایت حاصل ہے۔ اسے چھیڑنا کسی صورت ان کو قابل قبول نہیں ہو گا۔ ان کے استعفے یا کابینہ سے فارغ کرنے نے اس جلتی پر تیل کا کام کیا۔ جے یو آئی جو ویسے تو مرکز میں حکومت کی دم چھلا ہے یہاں بلوچستان میں اپوزیشن کے مزے لوٹ رہی ہے وہ بھی یکدم وزارت اعلیٰ کے خواب دیکھنے لگی ہے۔ یوں اب وزیراعلیٰ کا جانا ٹھہر گیا‘ صبح گیا یا شام۔ اب دیکھنا ہے میاں نواز شریف اپنے وزیراعلیٰ کو بچانے کے لئے کیا کرتے ہیں۔
………………
سعودی عرب میں رقم کی کٹوتی پر احتجاج کرنے والے 11 شہزادے گرفتار
عرصہ دراز سے یہ شہزادے حکومت کے شاہی خرچے پر پل رہے تھے۔ ان کے تمام تر اخراجات حکومت برداشت کر رہی تھی۔ اب بجلی‘ گیس اور دیگر یوٹیلٹی بلز کی وصولی پر ذرا سا حکومت نے روک ٹوک لگائی تو یہ شہزادے بھڑک اٹھے۔ بس فرق یہ ہے کہ انہوں نے غلط وقت کا انتخاب کیا۔ یہ وقت بھڑکنے کا نہیں سنبھلنے کا ہے۔ کیونکہ ابھی حال ہی میں حکومت نے درجنوں وزرا اور امور مملکت میں عمل دخل رکھنے والے شہزادوں کو نہیں چھوڑا۔ انہیں نچوڑ کر رکھ دیا تو یہ بے چارے شہزادے کس کھیت کی مولی ہیں۔
عجب تماشہ بنایا ہے منصفوں نے یہاں
ہمارے قتل کو دیکھو ثواب سمجھا گیا
سو اب انہیں بھی قربانی دینا ہو گی۔ مملکت کو اور بھی دوسرے بہت سے مسائل سے نبردآزما ہونا پڑتا ہے۔ جن میں معاشرتی اور اقتصادی صورتحال بہت اہم ہے۔ اوپر سے غیر ملکی مسائل بھی درپیش ہیں۔ دفاعی صلاحیتوں کو بھی بڑھانا ہے۔ سو اس لئے بھی حکومت کو ریال کی ضرورت ہوتی ہے۔ سو غیر ملکی امداد مانگنے سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ جوطریقہ سعودی عرب نے نکالا ہے۔اگر پاکستان میں بھی یہی فارمولا ایجاد کیا جائے۔ پورے ملک میں 300 کھربوں پتی افراد کو پکڑ کر ان سے فی شخص ایک ارب وصول کئے جائیں تو ہمارے 300 ارب روپے کے غیر ملکی قرضے ایک دن میں ادا ہو جائیں گے۔ اس سے پہلے کہ یہ لوگ اپنی بچی کھچی جمع پونجی بھی یورپ یا دبئی منتقل کریں۔ حکومت ہمارے مشورے پر کان دھرتے ہوئے ان کو پکڑنے کی مہم جلد از جلد شروع کر دے۔
………………
شاید سینٹ اور عام انتخابات نہ ہوں: مولانا فضل الرحمن
لگتا ہے پاکستان کی ہر حکومت کی دم کا چھلا بننے والی جے یو آئی موجودہ حکومت کے خاتمے سے پہلے پہلے اپنے دام مزید کھرے کرنا چاہتی ہے۔ خیبر پی کے میں حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کی کوشش میں مسلم لیگ ن کے انکار سے لگتا ہے مولانا اب خاصے برہم ہیں۔ اپنا غصہ اب وفاقی حکومت پر نکال رہے ہیں۔ کل تک مولانا ہر صورت مقررہ وقت پر الیکشن کا فرمان عالی شان سناتے پھرتے تھے۔ اب اچانک انہیں نزدیک کی نظر کمزور ہونے کا عارضہ لاحق ہو گیا ہے اور انہیں الیکشن ہوتے نظر نہیں آتے۔ بلوچستان میں وہ ثنا اللہ زہری کی حکومت بچانے کے عوض جو فی ایم پی اے کروڑوں کی گرانٹ مانگ رہے ہیں۔ وہ بھی الیکشن نہ ہونے کی وجہ ہے۔ ابھی ان کے مطالبات پورے کر دیں ابھی صوبائی حکومت کو استحکام حاصل ہو جائے گا اور وفاقی سطح پر بھی جو مانگ رہے ہیں انہیں دیا جائے تو انہیں الیکشن وقت پر ہوتے نظر آنے لگیں گے۔ مطلب پرست سیاستدانوں میں یہی خامی ہوتی ہے کہ وہ صرف اپنے مفادات کی سیاست کرتے ہیں۔ کسی کے ساتھ نہیں ہوتے۔ مولانا فضل الرحمن اسی سیاست کے اسیر ہیں۔ 8 برس سے کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی اور مرکز میں وزارتوں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ پھر بھی اپنی محسن حکومت کے آخری وقت میں اسے بلیک میل کرنے سے باز نہیں آ رہے۔ کیا مسلم لیگ (ن) آئندہ بھی ایسے بے اعتباروں پر اعتبار کرے گی۔ انہیں پھر اپنا اتحادی بنا کر نوازے گی۔
………………
21 سالہ سٹیفن بیوڈوئن دنیا کی خوبصورت ترین مجرم قرار
چوری اور ناجائز اسلحہ رکھنے کے جرم میں گرفتار اس حسینہ کے تصور میں بھی نہیں ہو گا کہ اس کی قسمت میں یہ اعزاز بھی لکھا ہے۔ اگر وہ تھوڑی سی محنت کرتی جرائم کی بجائے ملکہ حسن کے مقابلے میں حصہ لینے کی تیاری کرتی تو شاید مس یونیورس بھی بن سکتی تھی۔ بہرحال اب کینیڈا کی اس خاتون کو دنیا کی حسین ترین مجرمہ کا اعزاز حاصل ہوا ہے تو یہ بھی کچھ کم نہیں۔ وہ کہتے ہیں ناں…
سوچئے تو حسن عالم کچھ نہیں
دیکھئے تو دیکھتے رہ جایئے
اسی حسن عالم کی فتنہ گری کے سبب ماضی میں قدیم بادشاہوں کے دور میں اپنے مخالفین کے خلاف جاسوسی کے لئے یا انہیں مارنے کے لئے خوبصورت کنیزوں کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ پھر تاریخ نے دیکھا کہ دور جدید میں انہیں حسین چہروں کو جاسوسی کے لئے استعمال کیا جانے لگا جو آج بھی جاری ہے۔ کیونکہ یہ کافر ادا حسین چہرے آسانی سے اپنے شکار کو بہلا پھسلا لیتے ہیں اور لٹنے والے کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ وہ لٹ رہا ہے۔ پھر یہی حسین چہرے سفاک چہرے بن کر اپنا ہر جائز ناجائز کام نکلواتے ہیں۔ راز ہو یا تجوریاں سب ان کے ایک قاتلانہ اشارے پر کھلتے چلے جاتے ہیں۔
………………