پیاسے پاکستان کامقدمہ
پاکستان کو ’’کربلا‘‘بنانے کی کہانی جناب ضیا شاہد سے بہتر کون بیان کر سکتا ہے۔ ان کے نئے انکشافات دل دہلادینے اور آنکھیں کھول دینے والے ہیں۔ پاکستان کے دریائوں کا پانی روکنے کی بھارتی اور عالمی سازشوں کے خلاف سینہ سپر جہاد فی سبیل اللہ کرنے والا ’’قلم کا سپاہی50 برس‘‘ یعنی نصف صدی سے اس ظلم کا چشم دید گواہ ہے۔ پاکستان کو صحرا بنانے کی بھارتی حکمت عملی پر عمل درآمد پاکستان کے اندر سے ہو رہاہے، پاکستان میں آبی ذخائر کی تعمیر رکوانے کے ایجنڈے کوکامیاب بنانے کے لئے بنیا پیسے کو پانی کی طرح بہا رہا ہے۔ افسوس صد افسوس پاکستان کے پانیوں کا مقدمہ لڑنے والا ضیاشاہد اب مایوس ہو رہا ہے کہ یہاں کوئی جاگنے کو تیار نہیں۔
نصف صدی آنے کو آئی ہے کہ پانی کا مسئلہ سب سے پہلے جناب مجید نظامی ؒ منظر عام پر لائے تھے، انہوں نے کالاباغ ڈیم بنانے اور اس کے لئے رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے آخری سانس تک جدوجہد کی اسی مقدس مشن کی تکمیل کیلئے ضیا شاہد اور اس کالم نگار جیسے نجانے کتنے قلم بدست سپاہی جناب مجید نظامی کے چھوڑے ہوئے روشن نقوش پر چل رہے ہیں، سود و زیاں اور نفع و نقصان سے بالاتر ہو کر میدان عمل میں بروئے کار ہیں۔ پچاس برس قبل یہ جناب نظامی تھے جنہوں نے سب سے پہلے پکار پکار کر خبردار کیا تھا کہ پانی کا مسئلہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ آبی وسائل، آبی ذخائر اور وطن عزیز کے آبی حقوق کے لئے برسرپیکار نوجوان ضیا شاہد کا تو یہ ذاتی المیہ ہے کہ وہ بہاولنگر میں پیدا ہوا۔ یہ وہ علاقہ تھا جہاں اشرف المخلوقات قرارپانے والا انسان اور جانور کہلانے والی اس کی تابع مخلوق ایک ہی مقام یعنی ’ٹوبے‘ سے پیاس بجھاتی۔ پانی پینے کے قابل بنانے کے لئے ’پھٹکڑی‘ استعمال کی جاتی۔ دیہات میں حجام حجامت کے بعد عام طورپر اسے جراثیم سے بچائو کے لئے دیسی آفٹر شیو بنا لیتے۔
پیاس سے ستائے علاقہ سے ہجرت کو یاد کرکے ضیاء شاہد بتاتے ہیں ’ملتان پہنچا تو زندگی ذرا بہترہوئی۔ وہاں سے لاہور نکل آیا تو خوشگوار حیرت ہوئی کہ زیرزمین پانی صرف دس فٹ پر تھا۔ آج یہ بارہ سو فٹ کی دوری پر ہے۔ پانی کا مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوچلا ہے لیکن ہماری آنکھیں، کان بدستور بند۔‘
پنجاب پران گزرے پچاس برسوں میں سے پینتیس سال شریف برادران کی حکومت رہی۔ اس دوران ستلج کی تہذیب مٹ گئی۔ تہذیب راوی دم توڑ گئی۔ دریا کے کنارے آباد ان تہذیبوں کے مٹنے پر نہ کوئی آنکھ روئی نہ کسی ترقی پسند کا ماتھا ٹھنکا۔ فکر سے کوئی ابرو پھیلی نہ ہی کسی چہرہ کا رنگ زرد ہوا۔ موئن جوڈرو ہڑپہ کے لئے ہلکان و پریشان کسی دانشور جدید کی پلک بھیگی نہ کوئی صدائے احتجاج بلند ہوئی۔ حکمرانوں کو تو بالکل بھی نہیں۔ پیاس کی شدت سے آگاہ سپوتِ بہاولنگر نے کالاباغ ڈیم کا مقدمہ لڑا اور کامل آٹھ برس لاہور ہائیکورٹ کی راہداریوں میں جوتے گھساتا رہا۔
سندھ طاس معاہدہ (INDUS WATER TREATY) کے عنوانات سے جانا جاتا ہے۔ بھارت نے اس معاہدے کو پاکستان کو پیاسا رکھنے کے لئے استعمال کیا۔ دریائوں کا پانی کلی طورپر بند کر دیا حالانکہ اس معاہدے کے مطابق ایسا کچھ بھی طے نہیں ہوا تھا۔ پاکستان دریائے سندھ، چناب اور جہلم میں رواں پانی استعمال کر سکتا ہے۔
ضیاء شاہد نے سندھ طاس معاہدہ کی ’کلاز چار‘ کی وضاحت وتشریح کی جس سے نئے انکشافات سامنے آئے ہیں۔ ان کی دلیل ہے کہ ہم نے تین دریائوں کا پانی بھارت کو فروخت نہیں کیا تھا۔ یہ معاہدہ دراصل دریائوں کے پانی کے زرعی استعمال کا معاہدہ تھا۔ کلاز 4 کے مطابق تین دریائوں کا پانی آبی حیات کے لئے، ماحولیات کی بقا کے لئے پانی، پینے کا پانی بدستور پاکستان استعمال میں لا سکتا ہے۔ یعنی دونوں ممالک مل کر تینوں دریائوں کا پانی استعمال میں لا سکتے ہیں۔
جناب ضیاشاہد کے مطابق کلاز چار کے تحت پاکستان کے آبی حقوق کے لئے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ اس حق کا مقدمہ نہ صرف یہ کہ حکومت پاکستان دائر کرسکتی ہے بلکہ کوئی عام شہری بھی اس مقصد کے لئے رجوع کرنے کا حق رکھتا ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ زرعی استعمال کے علاوہ دیگر بیان کردہ ضروریات کے لئے پانی کا استعمال خود بخود لاگو ہو جاتا ہے۔
اب بھارت پاکستان کی آبی شہہ رگ کاٹنے پر تلا بیٹھا ہے۔ کشمیر کو بابائے قوم نے شاید اسی مقصد کی نشاندہی کی خاطر پاکستان کی شہہ رگ سے تشبیہ دی تھی۔ یعنی نظریہ کی بقا کی ساتھ ساتھ پاکستان کی زندگی بھی اس خطہ جنت نظیر سے جڑی ہے۔ مقبوضہ وادیوں میں بہتا یہ دریا کشن گنگا کہلاتا ہے اور جیسے ہی آزاد فضائوں میں لہراتا بل کھاتا رواں ہوتا ہے تو ہم اسے دریائے نیلم کے نام سے پہچانتے ہیں۔ بھارت اس پر کشن گنگا ڈیم بنانے کی سازش پر کام کررہا ہے تاکہ اس دریا کا گلا بھی رفتہ رفتہ گھونٹ دے۔ یہ اسی طرح کی مثال ہے جیسے دریا برہم پترا۔ ایشیا کے بڑے دریائوں میں شمار ہونے والا دریائے ہم پترا بنگلہ دیش سے بھارت میں داخل ہوکر ’گنگاجل‘ کا روپ دھار لیتا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ پاکستان اپنے اس حق کو لینے کے لئے سرے سے آمادہ دکھائی نہیں دیتا۔ سندھ طاس کمیشن سات سال سے خواب غفلت میں خراٹے لے رہا ہے۔ پی سی ون تیار ان برسوں میں تیار نہ ہو پایا۔ ہم عالمی بنک یعنی ورلڈ بنک پر دبائو ڈالنے کو تیار نہیں۔ نجانے کون سے ہاتھ اور کون سا دبائو ہے جو ہمیں اپنا حق لینے سے باز رکھے ہوئے ہے۔
یاد دلانا ضروری ہے کہ 1950ء میں دریائے ستلج کی وفات پر 72 ہزار مچھیروں کا معاشی قتل ہوا تھا۔ دریائے ستلج کی روانی پر ان ہزاروں مچھیروں کے گھروں کے چولہے روشن ہوا کرتے تھے جو بے روزگاری کے عذاب کی نذر ہوگئے۔ یہ حقیقت بھی ناقابل فراموش ہے کہ بھارت سرکار نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کام کیا ہے۔ ان کی اولین کوشش رہی ہے کہ پاکستان آبی ذخائر تعمیر نہ کر سکے۔ پاکستان کے اندر بھانت بھانت کی بولیوں اور نت نئے افسانوں کو تراش کر پورا بندوبست کیاگیا کہ کسی بھی قیمت پر ڈیم کی تعمیر گالی بنادی جائے۔ ایسا خواب بنا دیا جس کی بات کرنے والا سیاسی اچھوت بنا دیا جائے۔ اس مقصد کے لئے بھارت نے صرف حکمت عملی ہی نہیں بنائی بلکہ کثیر سرمایہ بھی مختص کرچھوڑا۔ ریوالونگ فنڈ کے نام سے اس ‘گْتھی‘ میں پچاس ارب روپے ڈالے۔ یہ ایسا فنڈ کہلاتا ہے کہ جس میں سے خرچ ہونے والا سرمایہ اسی مقدار سے دوبارہ سرکار دوبارہ ڈال دیتی ہے۔ زہر کی یہ ’پْڑیا‘ ختم نہ ہونے پائے۔
ہندوستان نے آبی ذخائرکی تعمیر رکوانے کی منصوبہ بندی کے لئے قائم پچاس ارب کے فنڈ میں اضافہ کرکے اب ایک ارب کا ریوالونگ فنڈ بنا دیا ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت اس مسئلہ کو جنگی ہتھیار کے طورپر یا جنگی حکمت عملی کے طورپر استعمال کررہا ہے اور ہمارے ہاں راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ راوی کو سیوریج نالے میں بدلنے کے عبرتناک انجام کو دیکھتے ہوئے اس محاورے کو بھی شاید بدلنے کا وقت آگیا ہے۔ ستلج پہلے ہی ریت کا دریا بن چکا ہے۔ ٹرمپ کے چھوٹے بھائی مودی نے گزشتہ سال ’بٹھنڈہ‘ میں نئی منطق چھوڑی تھی کہ پاکستان سندھو دریا کا پانی ہر سال سمندر میں پھینک کر ضائع کررہا ہے جس کی عالمی منڈی میں قیمت پچاس ارب ڈالر ہے یعنی دریائے سندھ کے اس پانی پر بھی بھارت کا حق ہے کیونکہ پاکستان اسے سنبھال نہیں سکتا۔
اب کچھ تذکرہ پاکستان کے اندر کی تلخ حقیقتوں کا بھی ہو جائے۔ کالا باغ کو سیاسی گالی بنانے کی کہانی کابھی کچھ ذکر ضروری ہے۔ سب سے پہلے جس زبان سیاہ سے یہ پراپیگنڈہ نکلا اس کا نام انجینئر مہتاب یوسفزئی بتایا جاتا ہے۔ یہ ان کا دعویٰ تھا کہ کالاباغ ڈیم تعمیر ہوا تو نوشہرہ ڈوب جائے گا۔ اس راگنی میں نیا سْر جنرل فضل حق نے ملایا اور مہتاب یوسفزئی کے دعوے پر اپنی جرنیلی سیل ثبت کر دی۔ اْس وقت سرحد، اب خیبر پختونخوا سے اٹھنے والی آوازوں پر سندھ سے بھی بھنبھناہٹ شروع ہوئی جو بعد میں شورشرابے میں تبدیل ہوئی۔ سابق مرد مومن جناب ضیاء کے دور میں راتوں رات مکانات پر سرخ نشان لگا کر اس تاثر کو مزید تقویت بخشی گئی۔ نجانے کس کے کہنے پر اور کیونکر یہ نشانات لگانے کی ’نیکی کمائی‘ گئی حالانکہ کالاباغ تو دور کی بات، کوئی سبز باغ بھی تعمیر نہیں ہورہا تھا۔ نہ اس کے کوئی امکانات کی کوئی فصل تیار ہورہی تھی۔
پھر ولی خان اینڈسنز نے یہ بیڑا اٹھالیا۔ علی الاعلان سینہ ٹھونک کر فرمایا کوئی دلیل قبول نہیں۔ تعمیرہوئی تو کالاباغ بم سے اڑادیں گے۔ مرگیا تو اولاد کالاباغ نہیں بننے دے گی یعنی پاکستان کو صحرا بنا کر چھوڑوں گا۔
ضیاء شاہد بھارتی ریوالنگ فنڈ سے پلنے والوں کا براہ راست نشانہ بن رہا ہے۔ پنجاب، سندھ میں آبی وسائل کا سرکاری اشتہار چھاپنے پر سندھی روزنامہ خبرون کا سات دن تک محاصرہ رہا اور گولی باری ہوتی رہی۔
دیکھاجائے تو پانی کے مسئلے پر خود کو سندھ کا وفادار ثابت کرنے والے نام نہاد کھلاڑیوں نے اپنی خوب صحت بنائی ہے، جیبیں ٹھنڈی کی ہیں۔ سابق چئیرمین واپڈا شمس الملک اس معاملے میں انسائکلوپیڈیا ہیں۔ ان کے مطابق کالا باغ ڈیم کا سب سے زیادہ فائدہ سندھ کو ہوگا۔ سندھ میں دریا کے آخر میں رہنے والے کاشتکار، غریب ہاری کو فائدہ ہو گا لیکن سیاست کا تجزیہ بتاتا ہے کہ طاقتور اور مالدار جاگیردار وڈیرہ اور سائیں اس معاملہ کو حل نہیں ہونے دیتا۔ وہ اس پر سیاست کرتا اور مال کماتا ہے۔