• news
  • image

چیف جسٹس آف پاکستان اور خدمت خلق

یہ بات کس قدر افسوس ناک ہے کہ پاکستان میں ایک مزاج بن چکا ہے کہ جو عوام کے حقوق کی بات کرے اُسے ’’پارٹی‘‘ بنا دیاجا تا ہے۔ جو عوامی سہولتوں پر حکومتی عدم توجہ کی بات کرے اُسے رسوا کر دیا جاتا ہے۔ خاندانی سیاست کے علمبرداروں نے ملک اور قوم کو گھر کی لونڈی بنا کے رکھ دیا ہے۔ ہم چند خاندانوں کے محتاج بن کر رہ گئے ہیں۔ ہم شریفوں،چودھریوں، وڈیروں، لٹیروں، خانوں، اربابوں ، گیلانیوں، اچکزئیوں، جتوئیوں، شاہوں اور نوابوں کے غلام بن کر رہ گئے ہیں ۔ صرف ایک دن کی صرف چند خبروں کو آپس میں مکس کر کے دیکھیں، کیسی مکروہ ترین صورتحال سامنے آتی ہے۔ جعلی شخصیتوں اور جعلی ذاتوں سے شروع ہو کر جعلی ڈگریوں، جعلی دوائیوں سے ہوتے ہوئے ہم جعلی یونیورسٹیوں تک آ پہنچے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ نہ تو کہیں پینے کا صاف پانی ہے، نہ خالص غذائیںاور نہ خالص ہوائیں… جس کا جتنا دل چاہتا ہے دو نمبری کر لیتا ہے۔ آنکھوں کے سامنے غیر قانونی پلازے تعمیر ہوتے ہیں اور پھر جب لوگ اُسے خرید لیتے ہیں تو اُسے ’’غیر قانونی ‘‘ تعمیرات ‘‘ میں شامل کر دیا جا تاہے۔ حکام بالا کی آنکھوں کے سامنے لاہور کے سینکڑوں شادی ہال تعمیر ہوئے مگر ہو ش تب آتا ہے جب عوام الناس نے لاکھوں روپے کی بکنگ کروا لی ہو۔ 

حکمرانوں نے عوام کی تربیت بھی ایسے پیرائے میں کر دی ہے کہ ذلتوں، خواریوں، جیلوں، جرمانوں، مقدموں سے فارغ ہو کر پھر وہی مخصوص دھندے شروع کردیتے ہیں۔سبزیاں زہریلی دوائیں اور زہریلے پانی کی مدد سے تیار کی جارہی ہیں، دودھ میں چھپڑوں کا پانی ملایا جارہا ہے اور ایسے ایسے کیمیکل ڈالے جا رہے ہیں جس سے مردوں کو ’’تازہ‘‘ رکھا جاتا ہے۔ کینسر جگر کے امراض اس قدر عام ہو رہے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب مذکورہ خطرناک مرض ملک میں ٹی بی ، ہیپاٹائٹس اور شوگر کی طرح پھیل جائیں گے۔
ملکی مجموعی صورتحال کی یہ ساری تمہید باندھنے کا اصل مقصد نوحہ پڑھنا نہیں ہے بلکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کے آج کل وہ اقدام ہیں جن کی طرف اشارہ کر کے حکومت کو آئینہ دکھا رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ غفلتوں کی نشاندہی کرنے پر بجائے حکومت شرمندہ ہونے اور شکرگزار ہونے کے منہ بسور رہی ہے اور طرح طرح کے بیانات سے ملکی اداروں کے خلاف مسلسل ہرزہ سرائی سے کام لے رہی ہے۔ کبھی چیف جسٹس کے دورہ میو ہسپتال کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی پانی میں موجود زہر کی نشاندہی پر اعتراض اُٹھایا جاتا ہے کہ یہ چیف جسٹس کا کام نہیں ہے۔ چند ماہ قبل صدر مملکت ممنون حسین کے بیان پر اُن کی اپنی جماعت ن لیگ تنقید کرتی نظر آئی جب انہوں نے ایک تقریب میں فرمایا کہ اگر ملک بھر میں کوئی بڑا پراجیکٹ لگایا نہیں گیا تو عوام کو یہ بتا یا جائے کہ حکومت نے اس قدر قرضے کیوں اُٹھائے؟ کیا یہ سارے قرضے ہوا میں لگا دیے گئے وغیرہ … اور پھر قارئین کو آرمی چیف کے وہ بیانات بھی یاد ہوں گے جب انہوں نے ملکی معیشت کے متعلق سیمینارز میں باتیں کی تھیں اور ملکی معیشت کے کمزور ہونے کے حوالے سے اکا دکا بیانات دیے تھے تو حکومتی ایوانوں میں بھونچال کی سی کیفیت پیدا ہوگئی تھی… اور پھر پنجاب کے ایک گورنر چوہدری سرور نے گورنری چھوڑ دی تھی اور عوام کے حقوق کی بات کی تھی تو پوری مسلم لیگ اُن کے پیچھے پڑ گئی پھر مجبوراََ انہیں پی ٹی آئی میں جانا پڑا، پھر میر ظفراللہ خان جمالی کو دیکھ لیں جنہوں نے بھرائی آنکھوں سے پارلیمنٹ کو ’’الوداع‘‘ کہا مگر حکمرانوں کی بے حسی ٹس سے مس نہ ہوئی …یہ سب کیا ہے؟ یعنی اگر آپ عوام کے حقوق کی بات کریں گے تو آپ کی خیر نہیں، خواہ آپ اس ملک کے صدر ہوں ، گورنر ہوں، آرمی چیف ہوں ،چیف جسٹس ہوں، چیف ایگزیکٹو ہوں ، ایم این اے ہوں یا عام ورکر آپ عوام کے حقوق کی بات کر کے حکومت کے نزدیک ’’گناہ کبیرہ‘‘ کے مرتکب ہو جائیں گے۔ حالانکہ معزز چیف جسٹس کے بقول اگر تعلیم اور صحت کے شعبوں میں لازمی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو اورنج ٹرین سمیت تمام منصوبوں کو روک دیا جائیگا۔اس میں برائی کیا ہے؟ اور اگر میڈیکل کالجز کے مالکان کو خیال نہیں ہے طلباء سے 30، 30لاکھ روپے سالانہ فیس بٹورنے کی تو آخر کسی نے تو اس ملک میں بڑھتی ہوئی زیادتیوں کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے ہیں… انہوں نے سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ تعلیم اور صحت کے معاملات پر اگر سمجھوتہ نہ ہوا تو کوئی میڈیکل کالج اب رجسٹر نہیں ہوگا، انہوں نے میڈٖیکل کالجز کے مالکان اور چیف ایگزیکٹو سے کہا کہ آپ نے جو ابھی فیسیں وصول کی ہیں اگران میں پیسے زیادہ ہوئے تو ان کی واپس ادائیگی کرنی پڑے گی۔ جو سرکاری ڈاکٹر اپنے پرائیویٹ کلینک چلا رہے ہیں وہ بند کروادیں گے، مجھے اب ایسے لوگ اکٹھے کرنے ہیں جوڈنڈے والے ہوں گے، ہم بندے لے جاکر کلینک پربیٹھ جائیں گے، میں یہ ٹھیک کرکے رہوں گا، غریب کا بچہ ڈاکٹربننا چاہتا ہے لیکن وسائل نہیں۔لاہور کے اسپتالوں کی حالت زارپر بھی ازخود نوٹس کی سماعتیں ہو رہی ہیں۔ اور اس پربیان آیا کہ ’’چیف جسٹس صاحب سندھ اور کے پی کے ہسپتالوں کا بھی دورہ کر لیں وہاں کی حالت بھی کچھ اچھی نہیں ہے‘‘ یعنی ’’اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی‘‘ کے مصداق سیاست کرنے سے ہم لوگ باز نہیں آتے۔ حالانکہ معزز جج صاحب نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اسپتالوں کی صورتحال کافی خستہ ہے، اسپتالوں کی مکمل حالت زار پر حلفیہ بیان کے ساتھ عدالت میں رپورٹیں جمع کروائیں۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ اسپتالوں میں جان بچانے والی ادویات کی موجودگی کی رپورٹ بھی جمع کروائیں تاہم نوٹس کا مقصد ایکشن لینا نہیں بلکہ اسپتالوں کی حالت زار کو بہتر کرنا ہوگا… مسلم لیگ ن محض یہ بتا دے کہ انہیں پنجاب میں دس سال ہوگئے حکمرانی کرتے ہوئے دس سال کا عرصہ گزر گیا ، کوئی ایک مثالی ہسپتال قائم کیا ہو جس پر یہ فخر کر سکیں؟ کیا ان دس سالوں میں پنجاب کی آبادی نہیں بڑھی، اور پھر جن مسائل کی طرف نشاندہی کی جارہی ہے کیا یہ واقعتاً مثالی ہیں؟ اگر یہ سب کچھ مثالی ہے تو ان حکمرانوں سے بندہ پوچھے کہ یہ ہلکی سی پیٹ درد کی دوا لینے امریکا و لندن کیوں جاتے ہیں؟ کیوں وہاں یہ بغیر پروٹوکول عام سے ہسپتالوں میں علاج کرتے نظر آتے ہیں، اگر انہیں وہاں کا سسٹم بہت اچھا لگتا ہے تو کیوں نہ ایسے سسٹم کو یہاں بھی متعارف کروا دیا جائے۔ان حکمرانوں کے اپنے پیاروں کے علاج جب سرکاری خرچ پر باہر سے ہو رہے ہوں ، ان کے اپنے بچے باہر تعلیم حاصل کررہے ہوں تو کیا ضرورت ہے انہیں صحت و تعلیم پر توجہ دینے کی۔ کیا ضرورت ہے انہیں عوام کے حقوق پر بات کرنے کی؟
یہ کبھی عوام کو تعلیم نہیں دیں گے کیوں کہ انہیں ڈر ہے کہ شعور آنے کے بعد عوام ان کے خلاف نہ اُٹھ کھڑے ہوں۔ کروڑوں پاکستانی خط غربت پر رینگ رہے ہیں، بیشمار خواتین زچگی کے دوران جان کی بازی ہار جاتی ہیں، اکثریت کو پینے کا صاف پانی نصیب نہیں۔ کروڑوں بچے تعلیم سے محروم کم خوراکی کا شکار عوام کو غلام سمجھتے ہیں، عوام کو انہیں اپنا چاکر سمجھنا چاہئے، یہ عوام کو استعمال کرتے ہیں عوام کو انہیں استعمال کر کے پھینک دینا چاہئے لیکن افسوس صد افسوس یہ تب تک نہ ہوگا جب تک عوام کو اچھے برے کی تمیز اور پہچان نہ ہوگی اور یہ تعلیم کے بغیر ممکن نہیں ۔
لہٰذااگر چیف جسٹس عوام کی بہتری کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں تو انہیں کام کرنے دینا چاہیے، وہ اپنے اختیار میں رہ کر کام کرنے کو ہمیشہ ترجیح دیتے ہیں، ہمیں مل جل کر اداروں کو ٹھیک کرنا ہے۔ یہ ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ ہر کام میں سیاست کا آغاز کر دیا جائے ایسا کرنے سے ہر ادارے میں بیٹھے کرپٹ عناصر کو شہ ملتی ہے کہ وہ مزید غلط کام کریں ، ہم پاکستانی ہیں ہمیں ہی پاکستان کو ٹھیک کرنا ہے ، باہر سے کسی نے آکر ٹھیک نہیں کرنا ، دعا ہے ہر شخص نیک نیتی سے اس ملک کی خدمت کرے ۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن