قانون سازوں کو آئین پڑھا دیں‘ بلوچستان حکومت دہشت گردی ختم کرنے میں سنجیدہ نہیں لگتی: سپریم کورٹ
اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت)سپریم کورٹ نے سانحہ کوئٹہ از خود نوٹس عمل درآمد کیس نمٹادیا۔تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ایڈووکیٹ جنرل خیبر پی کے نے صوبائی حکومت کی مردان کچہری دھماکے سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کراتے ہوئے کہا کہ سانحہ میں تین وکلاء تین پولیس افسروں سمیت14افراد شہید ہوئے۔اٹارنی جنرل نے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار سے متعلق کمشن رپورٹ میں دیئے ریمارکس حذف کرنے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے قرا ر دیا کہ رپورٹ ہم نے نہیں کمشن نے لکھی ہے، پھر بھی عدالت معاملے غور کرے گی۔دوران سماعت جسٹس دوست محمد خان نے ریمارکس دیئے کہ صوبائی حکومت دہشتگردی ختم کرنے میں سنجیدہ نہیں لگتی، ہائی کورٹ نے 2012 میں فرانزک لیب کے قیام کی ہدایت کی تھی، ان کا کہنا تھا کہ فرانزک لیب کیلئے مختص کروڑوں روپے ہضم ہوگئے تاہم جوڈیشل کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد نہ ہونا بھی جرم ہے، سترہ سال سے دھماکے ہو رہے ہیں لیکن صوبائی حکومت سوئی رہی ہے ہر بجٹ میں پانچ ملین بھی لگاتے تو فرانزک لیب تیار ہوچکی ہوتی۔ عدالت نے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کو رپورٹ پڑھنا نہیں آرہی تو عملدرآمد کیا ہوگا،قانون سازوں کو آئین بھی پڑھا دیں،شہریوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے، جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ایک جج نے سانحہ کوئٹہ کے ملزمان کو ٹریس کیالیکن ہر سانحہ پر تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ جج فراہم نہیں کر سکتی،تحقیقات پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہے۔ کوئٹہ سانحہ عمل درآمد ازخود نوٹس کیس کی سماعتجسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی،تو ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے نے صوبائی حکومت کی رپورٹ عدالت میں پیش کی ۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ اس عدالت کو رپورٹ موصول ہوئی لیکن اقدامات تو حکومت کو کرنے ہیں، جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ آپ نے رپورٹ ردی کی ٹوکری میں ڈال دی ہے۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ رپورٹ کی سفارشات آپکے سامنے ہیں، یہ کیس سفارشات سے متعلق ہی ہے،اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی نے کہا کہ سینٹرل رابطہ کمیٹی ان سفاتشات پر عمل کرائیگی، نیکٹا کے بجٹ کا معاملہ ہے لیکن صوبے نیکٹا سے منسلک ہیں، نیکٹا وفاقی نہیں قومی ادارہ ہے، سینٹرل ڈیٹا بیس اگلے اٹھارہ میں مکمل کر لیا جائیگا، کے پی کے اور بلوچستان پولیس فنگر پرنٹس شئیر کے مطلبوبہ شخص کی شناخت کر سکیں گے، دہشتگردوں کے فنسنشل لنکس ٹریس کرنے کا نظام مرتب کیا جا رہا ہے، بین الصوبائی سرحدوں پر ٹریفک کو چیک کرنے کا نظام مرتب کیا جا رہا ہے۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ جہاں جہاں مدرسوں ہیں وہاں سکول بھی بنائے جائیں، لوگوں کیلیے متبادل تعلیمی نظام موجود ہونا چاہیے، جہاں جہاں مدرسہ ہے وہیں سکول معیار تعلیم دینے کے لیئے بنائیں،سرکاری سکولوں میں ناشتہ اور کھانہ فراہم کریں۔ جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ کیا آپ کو معلوم ہے مدرسوں اور سکولوں میں سے زیادہ تعداد کہاں ہے، اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے جواب دیا کہ سرکاری اسکولوں زیادہ تعداد ہے، ہماری بدقسمتی ہے کہ آج اسکولوں سے زیادہ مدرسوں میں بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، بیرون ملک مدینہ منورہ ، ترکی ، مصر سے اسلامی ڈگری حاصل کرنے والوں کو مدرسے کے بجاے سرکاری سکول میں لگایا جائے تو سوچ میں تبدیلی آسکتی ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مدرسوں کی نگرانی اور متبادل تعلیمی نظام کی فراہمی بھی یقینی بنائی جا رہی ہے۔جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ کیا نیکٹا میں صوبائی نمائندگی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ چیف سیکریٹریز اور صوبائی داخلہ کے محکمے نمائیندگی کرتے ہیں، جسٹس دوست محمد نے کہا کہ سپارکو کی کتنی معاونت شامل ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہمارے پاس فضائی نگرانی کیلیے بہترین سیٹلائٹ نظام موجود ہے۔ سپیکر کونسل میں روس، چین اور ترکی نے مواصلاتی معاونت کی یقین دہانی کروائی ہے، میں نے سینٹ پیٹر برگ روس سے معاونت کا کہا تھا۔ جسٹس دوست محمد نے کہا کہ ایرانی بارڈر کے ساتھ مختلف اداروں کی 1700 سے زائد پوسٹیں موجود ہیں،پوسٹوں کے باوجود سمگلنگ اور غیر قانونی آمد ورفت جاری ہے، لنڈی کوتل میں باڑ لگا دی گئی لیکن ہزاروں لوگ آج بھی چیکنگ کے بغیر بارڈر کراس کرتے ہیں، سب سے پہلے بارڈر اور ائیرپورٹ ٹرمینل کنٹرول کیے جائیں، منشیات سمگلنگ اور اس سے حاصل شدہ آمدن دہشتگردی کی آکسیجن ہے،تافتان بارڈر سے ٹینکر آتا ہے حیدر آباد میں پکڑا جاتا ہے۔