منگل‘ 21 ؍ ربیع الثانی 1439 ھ‘ 9 ؍ جنوری 2018ء
دعا لینے گیا اور گھر اجاڑ دیا یہ کیسا صادق امین ہے۔ رانا ثناء اللہ۔ کوئی 3 بار وزیراعظم بنتا ہے اور کوئی 3 بار دولہا: عابد شیر علی
فیصل آباد کی باہمی طور پر دو متحارب سیاسی شخصیات رانا ثناء اللہ اور عابد شیر علی کا تعلق ایک ہی سیاسی جماعت سے ہے۔ لفظی گولہ باری میں دونوں ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور مخالفین کی بھی خوب درگت بناتے ہیں۔ اب خان صاحب کی شادی کے حوالے سے دونوں نے بیان دیا ہے۔ رانا صاحب نے روایتی بمبار قسم کا خاصہ بدذوق قسم بیان دے کر خان صاحب کی صداقت و امانت کا پوسٹ مارٹم کیا اور سخت الفاظ میں ایسے مرید پر طنز کے نشتر چلائے ہیں جو پیر کے گھر دعا لینے گیا تھا مگر پیر کا ہی گھر اجاڑ گیا۔ عابد شیر علی نے البتہ اپنے اہلِ ذوق ہونے کا ثبوت دیا اور کہا کہ یہ اوپر والے کا کام ہے کوئی 3 بار دولہا بنتا ہے اور کوئی 3 بار وزیراعظم۔ یہ ان کا اشارہ بھی خان صاحب کی طرف تھا۔ مگر یہ سچ بھی تو سامنے ہے کہ ان دونوں کی قسمت عجیب ہے نہ میاں صاحب 3 بار اپنا دور اقتدار پورا کر سکے نہ خان صاحب اپنی شادیاں بچا سکے۔ اب امیر مقام جیسے مخالفین تو یہ کہتے پھرتے ہیں کہ عمران خان کی قسمت میں صرف شادی کی شیروانیاں اور انگوٹھیاں ہیں۔ تو کیا اقتدار والی شیروانی اور حکومتی مُہر والی انگوٹھی نہیں ہے۔ بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ اب خان صاحب روحانی عاملہ سے شادی کرکے اقتدار تعویذ دھاگوں اور جادو ٹونے کی مدد سے حاصل کرنے کے چکروں میں ہیں۔ جتنے منہ اتنی باتیں ہو رہی ہیں۔ شاید خان صاحب لطف لے رہے ہوں گے یہ کہتے ہوئے کہ؎
ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا
…٭…٭…٭…٭…٭…
جماعت اسلامی حقیقی جمہوری اور پروگریسو جماعت ہے: سراج الحق
لندن جا کر تو سراج الحق صاحب کو بھی لگتا ہے زمستاں کی ہوا راس آ گئی ہے اور وہ بھی یورپی جمہوریت کے ثمرات دیکھ کر جماعت اسلامی کو حقیقی جمہوری اور پروگریسو (ترقی پسند) پارٹی کہنے لگے ہیں۔ اس سے قبل جناب مرحوم قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی کی جامد سیاسی تحریک میں جان ڈالنے کی بھرپور کوشش کی اسے عوامی اور مقبول بنانے کے لئے اس میں میوزک اور پاسبان کا تڑکا بھی لگایا۔ ظالمو قاضی آ رہا ہے جیسے نعرے بھی ایجاد ہوئے۔ مگر وہ بات نہ بن سکی کہ پاکستانیوں کی اکثریت ان کی جمہوریت پسندی پر اعتماد کا اظہار کرتی۔ اب قبلہ سراج الحق جو دورہ برطانیہ مکمل کر کے واپس آ چکے ہیں۔ اور کہہ چکے ہیں کہ اگلے الیکشن میں ان کا تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد بھی نہیں ہو گا۔ وہ ایم ایم اے کی سیاست میں بحالی سے پرامید ہیں کہ ایم ایم اے میں شامل دینی جماعتوں کا اتحاد آئندہ الیکشن میں اچھی کارکردگی دکھائے گا۔ اس کے بعد یہ جمہوری اور ترقی پسندی کا دعویٰ کون مانے گا۔ شاید انہیں پتہ ہو گا کہ دفاع کونسل پاکستان بھی اپنا سیاسی اتحاد لے کر میدان میں کود چکی ہے اور آئندہ الیکشن میں وہ بھی اس حوالے سے پرامید ہے۔ یوں بھی سیاسی دنیا میں سب لوگ پرامید ہی ہوتے ہیں کامیاب ہونا ضروری نہیں۔ اب دیکھنا ہے پاکستانی عوام سراج الحق صاحب کے کہنے پر کتنا یقین کرتے ہیں۔
…٭…٭…٭…٭…٭…
مجھ میں بھٹو کی روح آ گئی ہے: آصف زرداری
اب تو خدا ہی خیر کرے۔ جب سے قبلہ آصف زرداری نے کہا ہے کہ ان میں بھٹو کی روح آ گئی ہے۔ اس وقت سے ساکنان گور غریباں گڑھی خدا بخش میں عجب رقت طاری ہے۔ اردگرد یا اطراف کی قبروں کے باسی اپنے شہید قائد کی روح کو تلاش کرتے پھر رہے ہیں اور شاکی ہیں کہ نسبی اور حسبی اعتبار سے اگر بھٹو مرحوم کی روح نے کسی جسد خاکی میں دوبارہ جگہ لینے کی ٹھان ہی لی تھی تو پھر یہ اعزاز مرتضیٰ بھٹو کے صاحبزادے ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کو حاصل ہونا تھا جو اصل بھٹو ہے اور ان میں اگر دادا کی روح آ جاتی تو مزہ دوبالا ہو جاتا۔ وہ پھر 70 کلفٹن کو سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا دیتے اور لاڑکانہ، رتوڈیرو اور گڑھی خدابخش میں بھٹو مرحوم کے چاہنے والے ان کے گرد دیوانہ وار جمع ہوتے۔ ویسے بھی اس وقت بھٹو کے ورثے اور وراثت کو بچانے کے لئے 70 کلفٹن، گڑھی خدا بخش اور رتو ڈیرو میں بھٹو ہائوسز کی عظمت رفتہ کو بحال کرنا ہو گا تاکہ غریبوں کی داد رسی ہو اور ان کو پتہ چلے کہ ان کا اصلی بھٹو زندہ ہے۔ فاطمہ بھٹو پڑھی لکھی سلجھی خاتون ہیں وہ بھی اپنے بھائی کی بھرپور معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ وہ بھی اپنے باپ دادا کی میراث کو ان لوگوں کے چنگل سے چھڑانے کے لئے آگے آئیں جو بھٹو بن کر اس پر قبضہ کئے بیٹھے ہیں۔ اس سے شاید مرحوم بھٹو کی روح کو چین آ جائے گا اور وہ اِدھر اُدھر جانے کی بجائے واپس گڑھی خدا بجش کے اپنے مقبرے میں زیادہ چین و سکون محسوس کرے گی۔ ویسے زرداری صاحب محتاط رہیں۔ بھٹو کی روح کا ان میں آنا خطرناک بھی ہو سکتا ہے کیونکہ بھٹو کو عوام کی خاطر پھانسی کے پھندے پر جھولنا پڑا تھا۔
…٭…٭…٭…٭…٭…
92 سالہ مہاتیر کی سیاست میں واپسی، حزب اختلاف کی قیادت کریں گے
ملائشیا میں موجودہ حکومت پر کرپشن کے الزامات اور وزیراعظم کے خلاف اپوزیشن کی مہم جاری ہے۔ اب اس مہم میں جان ڈالنے کے لئے جدید ملائشیا کے بانی مہاتیر محمد کو اپوزیشن دوبارہ سیاست میں لے آئی ہے۔ مہاتیر محمد کی عمر اس وقت 92 سال ہے اور آج کل سیاست سے ریٹائرمنٹ کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ ان کی ملائشیا اور اپنے عوام کے لئے خدمات بے مثال ہیں۔ ملائشیا کو ترقی یافتہ اور جدید ملک بنانے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا اور ملک کو کرپشن سے پاک و صاف رکھا۔ اب ان کے بعد وہاں بھی سیاستدان بے لگام ہو رہے تھے۔ حکومت کی کرپشن کی داستانیں ہمارے ملک کی طرح زبان زدعام ہیں۔ ان حالات میں حکومت کو چیلنج کرنے کے لئے اپوزیشن کے پاس شاید کوئی رہنما موجود نہیں ہے۔ اس لئے انہوں نے مہاتیر محمد کو دوبارہ سیاست میں فعال کر لیا ہے۔ بفضل خدا پاکستان اس معاملے میں خود کفیل ہے۔ یہاں کا ہر سیاستدان خود کو ملک اور قوم کو لاحق ہر مرض کا شافی علاج اور معالج سمجھتا ہے۔ ملائشیا میں شاید ایسے حاذق سیاستدانوں کی کمی ہے جو ہر بیماری کے لئے امرت دھارا بننے کا اعلان کرتے ہیں۔ اب دیکھنا ہے اس عمر ناتواں میں مہاتیر محمد اپوزیشن کا خواب پورا کرتے ہیں اور ملک کو کرپشن سے بچانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔ فی الحال تو ان کی آمد ہی کرپشن میں ملوث افراد کیلئے پریشانی کا پیغام بن رہی ہو گی۔
…٭…٭…٭…٭…٭…