• news

ثناءاللہ زہری 2سال 16 دن وزیراعلیٰ بلوچستان رہے

لاہور(فرخ سعید خواجہ) مسلم لیگ (ن) بلوچستان کے صدر نواب ثناءاللہ زہری2 سال 16 دن وزیراعلیٰ بلوچستان رہے، ان کے خلاف بلوچستان اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع تحریک عدم اعتماد پر مسلم لیگ (ن) اور اس کی اتحادی جماعتوں نیشنل پارٹی‘ مسلم لیگ (ق)‘ مجلس وحدت المسلمین سمیت حزب اختلاف کی جماعتوں جمعیت علماءاسلام(ف) ، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اور عوامی نیشنل پارٹی کے 14 ارکان نے دستخط کئے تھے۔ نواب ثناءاللہ زہری اس لحاظ سے بدقسمت رہے کہ اُن کے پیشرو نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اپنی وزارت اعلیٰ کے ڈھائی سال بخیروخوبی پورے کئے تھے لیکن نواب ثناءاللہ زہری ایسا نہیں کرسکے۔ الیکشن 2013ءمیں مسلم لیگ (ن) بلوچستان اسمبلی کی سنگل لارجسٹ پارٹی کی حیثیت سے سامنے آئی تھی اور اس پوزیشن میں تھی کہ باآسانی بلوچستان میں اپنی حکومت بنالے لیکن مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد نوازشریف نے انہیں بمشکل اس بات پر آمادہ کیا کہ بلوچستان کے مخصوص حالات کے پیش نظر وہاں قوم پرست جماعتوں کو حکومت بنانے کا موقع دیا جائے۔ بلوچستان اسمبلی میں پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی 14 ارکان کے ساتھ دوسرے اور نیشنل پارٹی 11 ارکان کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھی جبکہ مسلم لیگ (ن) کے 23 ارکان تھے۔ جمعیت علماءاسلام (ف) 8، مسلم لیگ ق 5، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل 2، مجلس وحدت المسلمین، نیشنل پارٹی عوامی اور عوامی نیشنل پارٹی کے ایک ایک رکن بلوچستان اسمبلی ہیں۔ نواب ثناءاللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروائی گئی تو وہ بیرون ملک تھے۔ اگلے ہی روز وہ واپس بلوچستان پہنچے اور آتے ہی اپنے معاون خصوصی امان اللہ کو برطرف کردیا جبکہ صوبائی وزیر ماہی گیری سرفراز خان چاکر اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ ثناءاللہ زہری نے صوبائی وزیرداخلہ میر سرفراز بگٹی کو بھی اُن کے عہدے سے ہٹا دیا۔ اس سے ماحول مزید گرم ہوا۔ وفاقی وزراءجنرل (ر) عبدالقادر بلوچ، خرم دستگیر خان، وزیر مملکت میر جام کمال بلوچستان پہنچے۔ اُن کے سامنے مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں نے شکایات کے دفتر کھول دئیے۔ اُن کی رپورٹ پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی وزیرداخلہ احسن اقبال کے ہمراہ کوئٹہ پہنچے۔ اُدھر سپیکر بلوچستان اسمبلی راحیلہ حمید خان درانی نے 9 جنوری کو بلوچستان اسمبلی کا اجلاس بلالیا۔ اجلاس کے انعقاد سے ایک روز پہلے رات گئے تک صلح صفائی کی کوششیں جاری رہیں جو نتیجہ خیز نہ ہوسکیں۔ سو اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے سے پہلے نواب ثناءاللہ خان زہری نے وزارت اعلیٰ کے عہدے سے استعفےٰ پیش کردیا جسے منظور کرلیا گیا اور ادھر اسمبلی کے اجلاس میں تحریک عدم اعتماد کے محرک مسلم لیگ ق کے میر عبدالقدوس بزنجو نے تحریک عدم اعتماد کی قرارداد واپس لے لی۔ اُدھر سپیکر راحیلہ حمید درانی نے گورنر بلوچستان کے حکم پر بلوچستان اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا۔ تاہم بلوچستان کا بحران تاحال باقی ہے۔ مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں میں سے آئندہ کیلئے وزیراعلیٰ کے لئے کسی ایک نام پر اتفاق رائے نہ ہوسکا تو وہاں گورنر راج لگنے کے امکانات ہوں گے۔

ای پیپر-دی نیشن