زیادذتی کے بعد قتل ہونیوالی بچی کی نماز جنازہ: قصور مظاہرے ‘ ڈی سی آصف پر دھاوا‘ پولیس فائرنگ‘2 جاں بحق‘ رینجرز طلب
قصور+ لاہور+ اسلام آباد+ مصطفی آباد+ للیانی (نمائندہ نوائے وقت+ نامہ نگار+ خصوصی نامہ نگار+ کامرس رپورٹر) قصور میں اغواء اور زیادتی کے بعد قتل ہونے والی کمسن بچی زینب کی نماز جنازہ ادا کردی گئی، نمازجنازہ عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے پڑھائی، نمازجنازہ میں سیاسی وسماجی، مذہبی، صحافی ودیگر تنظیموں کے ساتھ ساتھ ہزاروں افراد نے شرکت کی، قصور شہر سمیت پورے ملک کی فضا افسردہ ہوگئی‘ قصور میں حالات کشیدہ، پولیس اور مظاہرین میں تصادم، 2 افراد جاں بحق 7 زخمی ہوگئے۔ نمازجنازہ میں سیاسی وسماجی، مذہبی، صحافی ودیگر تنظیموں، پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات چوہدری منظور احمد، چیئرمین میونسپل کمیٹی قصور ایاز احمد خان، وائس چیئرمین احمد لطیف چوہدری ایڈووکیٹ، چیئرمین مہر محمد لطیف یوسی نظام پورہ قصور، مقصود صابر انصاری، تحریک انصاف کے امیدوار صوبائی اسمبلی پی پی 177 عطاء الرحمن انصاری‘ امیدوار برائے صدر بار ایسوسی ایشن سردار فاخر علی ایڈووکیٹ، چیئرمین سردار سرور ڈوگر، صدرپر یس کلب قصور حاجی محمد شریف مہر، گروپ لیڈر مہر محمد جاوید، جنرل سیکرٹری پریس کلب طارق محمود جٹ، تکریم علی، پیر مفتی حامد علی قادری، مفتی ارشاد قادری کے ساتھ ساتھ ہزاروں افراد نے شرکت کی، تدفین کے بعد شہریوں کی بڑی تعداد نے زینب کے گھر کی طرف رخ کرلیا۔ قبل ازیں قصور کی تاجر برادری سمیت تمام سیاسی وسماجی، مذہبی اور دیگر تنظیموں کی جانب سے شٹر ڈاؤن ہڑتال کرکے تمام کاروباری مراکز بند اور قصور کی مین شاہراہوں پر داخلی اور خارجی راستوں کو احتجاجاً بند کر دیا گیا، مظاہرین ڈپٹی کمشنر قصور سائرہ عمر کے آفس میں احتجاج ریکارڈ کروانے کیلئے داخل ہوئے تو ڈپٹی کمشنر سائرہ عمر نے گھبرا کر مظاہرین کو روکنے کیلئے پولیس کو حکم دیا جس پر وہاں موجود اہلکاروں نے حالات کنٹرول نہ ہونے پر گولی چلا دی جس کے نتیجہ میں 2 افراد جاں بحق ہوگئے۔ جاں بحق ہو نیوالوں کی 45سالہ محمد علی ولد عمر دین کوٹ امیر باز خان اور 22سالہ شعیب ولد اسلام کوٹ فتح دین کے نام سے شناخت ہوئی۔ فائرنگ سے جاں بحق افراد کی نعشیں ڈی ایچ کیو ہسپتال قصور کے مردہ خانہ میں منتقل کی گئیں تو ورثاء اور شہریوں نے دونوں نعشوں کو مردہ خانہ سے نکال کر سڑک پر رکھ کر احتجاج شروع کر دیا اور پھر دوبارہ پولیس اور مظاہرین آمنے سامنے آگئے۔ قصور کی مین شاہراہیں بند کر دی گئیں۔ مظاہرین کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ملزمان کو گرفتار کرکے انصاف فراہم کیا جائے اور واقعات کی تفتیش میں غفلت برتنے والے پولیس افسروں کو بھی گرفتار کرکے کارروائی کی جائے۔ مظاہرین نے کہا وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف جب تک خود قصور نہیں آتے احتجاج جاری رہے گا۔ احتجاج اور حالات کشیدہ ہونے پر رینجرز کو طلب کرلیا گیا۔ مظاہرین نے ڈی سی آفس کا گیٹ توڑ دیا اور حکومت اور انتظامیہ کے خلاف زبردست نعرے بازی کی گئی۔ دوسری طرف پولیس نے زیادتی کے مبینہ ملزم کا خاکہ جاری کردیا ہے جبکہ وزیرقانون رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ مجرم جلد گرفتار کرلئے جائیں گے، واقعہ کے خلاف سینٹ، قومی اسمبلی، پنجاب اسمبلی میں تحاریک التوا جمع کردی گئیں۔ نمائندہ نوائے وقت کے مطابق بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈپٹی کمشنر نے گولی چلانے کا حکم دیا۔ فائرنگ کرنے والے 4 اہلکاروں کو گرفتار کرلیا گیا جن میں 2 پولیس اور 2 سول ڈیفنس کے اہلکار ہیں، دو پولیس اہلکار راشد اور شفیق، جبکہ 2 سول ڈیفنس کے اہلکار امانت اور عابد شامل ہیں۔ جماعت اسلامی کے ڈاکٹر سید وسیم اور تحریک انصاف کے محمد شعیب صدیقی نے پنجاب اسمبلی میں تحریک التوا جمع کرائی، مسلم لیگ ن کی حنا پرویز بٹ نے بھی قرارداد جمع کرائی، سعدیہ سہیل اور خدیجہ فاروقی نے توجہ دلائو نوٹسز جمع کرائے، زینب کو 6 روز قبل اغوا کیا گیا تھا جس کی نعش گزشتہ روز ذکی اڈہ کے قریب سے ملی۔ بچی کے والدین عمرہ کے لئے گئے ہوئے تھے جن کی واپسی پر تدفین کی گئی۔ قومی اسمبلی اور سینٹ میں بھی تحاریک التوا جمع کرائی گئی ہیں۔ واقعہ کے بعد لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ پولیس کی فائرنگ سے زخمی ہونے والے چار افراد کو جنرل ہسپتال لاہور منتقل کر دیا گیا۔ پاکپتن اور دیگر شہروں میں بھی احتجاجی مظاہرے کئے گئے، بعض ذرائع کے مطابق پولیس کی طرف سے بچی کو قتل کرنے والے شخص کا خاکہ جاری کر دیا گیا تھا تاہم بعد میں ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ خاکہ درست نہیں۔ قصور ڈسٹرکٹ ہسپتال کے باہر مظاہرہ کرنیوالے مظاہرین نے ہسپتال پر حملہ کرکے پولیس ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل سٹاف کو تشدد کا نشانہ بنایا اور ہسپتال میں توڑ پھوڑ کی، مظاہرین نے مردہ خانے کا تالا توڑ کر نعشوں کو قبضہ میں لیکر مین فیروزپور روڈ پر رکھ کر احتجاج شروع کر دیا اور پوسٹ مارٹم کرانے سے انکار کردیا۔ واقعہ کیخلاف ڈاکٹروں پیرامیڈیکل سٹاف اور سکیورٹی عملہ نے ہڑتال کر دی۔ نامہ نگار کے مطابق بچی زینب کے بڑے بھائی ابوذر امین نے نوائے وقت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ میری بہن پر حملہ نہ صرف قصور کے عوام پر حملہ ہے بلکہ یہ پورے پاکستان پر حملہ ہے۔ عوام کو اس واقعہ پر بھرپور احتجاج کرنا چاہئے۔ اگر ہم آج باہر نہ نکلے تو پھر ایسے واقعات رک نہیں سکیں گے۔ کیا ہم اس ڈر سے بچیوں کو پڑھانا چھوڑ دیں، کیا ہم انہیں پنجرے میں قید کر دیں۔ پولیس کا رویہ ہمارے ساتھ انتہائی نامناسب تھا۔ لگتا ہے پولیس ہمارے خلاف ہی کام کر رہی ہے، پولیس نے نہتے بے گناہ لوگوں کو شہید کر دیا۔