قصور- معاشرہ کا ناسور- ذمہ دار کون؟
میں نے ابھی ابھی ٹیلی ویژن پر قصور کی 8سالہ معصوم زینب کے جنازہ کے کچھ مناظر دیکھے ہیں۔ حیوانیت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے کئی ہفتوں سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مختلف صوبوں سے ایسی ہوش ربا اور خون کے آنسو رلانے والی خبریں منظر پر آ رہی تھیں جو ایک طرف پورے معاشرے کے شدید بیمار اور بے حس ہونے کی نشاندہی کرتی تھیں اور دوسری طرف ایسا لگتا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں گڈ گورننس کے کالعدم ہو جانے کے باعث شہریوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کو محفوظ رکھنے میں بری طرح ناکام اور بے بس ہو چکی ہیں۔ درندگی کے اس وحشیانہ حادثہ نے ایک ایسے دھماکہ یا زلزلہ کا تاثر پیدا کیاہے جس کے نتیجہ میں ہزاروں کی تعداد میں عوام آنکھ جھپکنے میں زینب کے جنازہ میں جمع ہوئے اور لڑکھڑانے کے عالم میں اس خاکسار نے سنبھلتے ہوئے محسوس کیا زینب کیساتھ ہونیوالے سلوک نے قصور کے شہریوں کو اچانک بیدار کر دیا ہے۔ پولیس کی طرف عوام کا ردعمل اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کے دفتر کا گھیرائو ایک پیغام رکھتا تھا جو ارباب حکومت کو ہر وقت سمجھ جانا چاہئے۔ میں نہیں سمجھتا کہ جنازے کے وقت قصور میں امن و امان قائم رکھنے کیلئے پولیس کو گولیاں چلانے کی ضرورت کیوں پیش آئی جس کے نتیجہ میں 2شہری ہلاک ہو چکے ہیں اور مقامی ہسپتال سے کئی زخمیوں کی جن کی تعداد نہیں بتائی گئی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔شرم کی بات یہ ہے کہ ملک بھر میں ہونیوالے ایسے انسانیت سوز واقعات بھی سیاست کے ایک بڑے کھیل کا حصہ بنا کر ہر متعلقہ سٹیک ہولڈر اپنی اپنی بین بجاتا ہے۔ بیانات دیتا ہے تصویریں کھنچواتا ہے۔ دکھیا خاندان کو لفافے دیکر سیاست چمکائی جاتی ہے۔ انکے پیچھے بڑے بڑے لیڈروں کی اخباروں اور ٹی وی سکرین پر تصویریں اور عوام کی خدمت اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کے چرچے ہوتے ہیں حالانکہ یہ ہر دو یعنی عوام اور جمہوریت بے حد مظلوم ہیں اور اپنے ذاتی مفاد کے حصول کیلئے ان ہر دو کے ناموں کا استعمال ایک بہت بڑا دھماکہ ہے۔ ماضی قریب میں اگر بین الاقوامی علاقائی اور خصوصی طور پر داخلی معاملات پر نظر ڈالیں تو دفاعی قومی سلامتی اور اندرونی سیاسی معاملات بڑی تیزی کے ساتھ بہتر ہونے کی بجائے خرابی کی طرف جا رہے ہیں جن کا تفصیلی جائزہ لینے کی بجائے اخبارات کے علاوہ اعلیٰ ترین سطح پر حکومتی اور اپوزیشن کے اعلانات و بیانات ہی کافی ہیں۔ صوبہ بلوچستان کی صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک غیر یقینی بحران کی طرف بڑھ رہی ہے۔ صوبہ سندھ اور کراچی شہر کے حالات کو بھی تسلی بخش نہیں کہا جا سکتا۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں اگرچہ فی الحال فوج کی موجودگی نے حالات کو کنٹرول میں رکھا ہوا ہے لیکن افغان سرحد کے ساتھ کابل اور نئی دہلی کی ملی بھگت سے جو بدامنی اور بیرونی فوجی مداخلت کی کارروائیاں جاری ہیں۔ انکی نوعیت نہایت سنگین ہیں۔ صوبہ پنجاب میں پاکستان کی مشرقی سرحد پر لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بانڈری پر بھارت کی متواتر گولہ باری اور اشتعال انگیزی کے علاوہ جس سے سابق وزیر اعظم جناب میاں محمد نواز شریف کو نااہل قرار دیا ہے اور انکے خاندان کے علاوہ بعض وزراء خصوصاً سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار و دیگر مسلم لیگ نون کیخلاف عدالتی کاروائیاں جاری ہیں نئے وزیراعظم جناب شاہد خاقان عباسی کی حکومت دل لگا کر اور قدم جما کر گڈ گورننس کی طرف توجہ دینے لوگوں کو روزگار مہیا کرنے اور ملک کی اقتصاد صورتحال کو مشکلات کی دلدل سے نکالنے کیلئے کوئی قابل ذکر پیش قدمی نہیں کر سکی۔ یہاں تک کہ اخباری اطلاعات کے مطابق سی پیک جیسے اہم میگا منصوبوں کے بارے میں بھی طرح طرح کے سوالات اٹھ رہے ہیں کسی بھی ملک کی ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کیلئے قومی یکجہتی اور اتحاد کے علاوہ سیاسی اور اقتصادی توازن کا برقرار رکھنا قومی قیادت کا فرض ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے مجھے یہ کہنے میں کوئی باق نہیں ہے کہ موجودہ صورتحال میں حالات مثبت سمت کی بجائے منفی سمت میں انتشار کی طرف جا رہے ہیں۔ حالانکہ قوم حالت جنگ میں ہے اور قومی سلامتی کے تناظر میں افواج پاکستان نے فوجی آپریشن ضرب عضب اور دوسر ا آپریشن ردالفساد کے ذریعے جو کارہائے نمایاں ادا کئے اور جو بے مثال قربانیاں دی پوری دنیا اسکی گواہ ہے لیکن کس قدر افسوس کی بات ہے کہ تمام ادارے قدم سے قدم اور کندھے سے کندھا ملا کر منزل کی طرف آگے بڑھنے کی بجائے اپنے مقررہ ہدف حاصل کرنے میں مشکلات کا شکار ہیں جس کی ایک مثال نیشنل ایکشن پلان کی سست روی ہے۔ مثال کے طور پر تمام دینی مدرسوں کو ایک طے شدہ نظام کے تحت ابھی تک نہیں لایا جا سکا۔ اسی طرح فاٹا کے علاقوں میں ریفارمز کو نافذ کرنے میں جو روڑے اٹکائے جا رہے ہیں ان مشکلات کو اعلیٰ ترین قومی مفاد میں جلد از جلد حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
مجھے یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ عدلیہ ریاست کا ایک اہم ترین ادارہ ہے اسلام کے ابتدائی دور میں خصوصاً خلافت راشدہ کے دوران اسلامی تاریخ اعلیٰ ترین روایات سے بھری ہوئی ہے لیکن مجھے نہایت ہی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس عظیم ادارے کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فاضل جج صاحبان اور خصوصی طور پر عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار صاحب نے اس تمام دورانیہ میں اعلیٰ عدلیہ کیخلاف نازیبا الزامات لگائے تو انہوں نے نہایت صبر کے ساتھ برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی ردعمل کے بغیر یہ کہہ کر عوام کے دل جیت لئے ہیں کہ وہ جلد از جلد آئینی اصلاحات کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے عوام کی امنگوں اور خواہشات کیمطابق قانون اور آئین کی بالادستی کو یقینی بنائیںگے متعدد حالیہ مقدمات میں اپنے فیصلے سناتے ہوئے اور کئی معاملات میں از خود نوٹس لیتے ہوئے عدلیہ نے قانون اور آئین کی بالادستی کا واضح ثبوت مہیا کیا ہے۔ جن میں تازہ ترین قصور میں ہونیوالا معصوم بچی زینب کا دردناک واقعہ شامل ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان نے ایک بحرانی کیفیت سے گزر رہی ہے لیکن اس قوم نے ہندو کانگرس اور برطانوی حکومت کے مخالفانہ گٹھ جوڑ کے باوجود قائد اعظم کی قیادت میں پاکستان کے قیام کا معجزہ برپا کیا تھا۔ انشاء اللہ اسی جذبہ کے ساتھ ہم آئندہ بھی ہر امتحان میں سرخرو ہونگے۔