• news
  • image

ننھے پھول

قصور میں مبینہ طورپرزیادتی کے بعد ہلا ک کی جانے والی زینب کے ایشونے معاشرے کے تمام طبقات کومتاثر کیا ہے لیکن زینب جیسی کئی بچیاں اور بچے روزانہ ملک کے مختلف حصوں میں ہماری بے حسی کی وجہ سے ہوس کا نشانہ بن رہے ہیں اور اکثر والدین اسی وجہ سے مجرموں کے خلاف کارروائی نہیں کرواتے کہ ملک میں موجود انصاف کے حصول کے لئے انہیں ایک طویل مرحلے سے گزرنا پڑے گا جس کے وہ متحمل نہیں ہوسکتے ہمارے معاشرہ میں یہ بھی عجیب رسم پنپ رہی ہے کہ مظلوم کا ساتھ دینے کی بجائے اس کو مختلف طریقوں سے ڈرایا جاتا ہے کہ پولیس اور عدالتوں پر اٹھنے والے اخراجات کیسے برداشت ہوں گے اور بچے یا بچی کی بدنامی مسلسل ہوتی رہے گی جب تک مقدمہ عدالتوں میں زیر سماعت رہے گا۔ کون ایسی لڑکی سے شادی کرے گا جس کے ساتھ کسی نے زیادتی کی ہواسی طرح جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والے بچے کو بھی معاشرے میں تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ ایسے حالات میں مظلوم والدین صلح کرنا ہی مناسب سمجھتے ہمیں ایسے عوامل کا جائزہ لینا ہوگا جو بڑی تیزی کے ساتھ نوجوان نسل بے راہ روی کا شکاربنا رہے ہیں اور ان میں سرفہرست موبائل فون ہے۔ بظاہرچھوٹی سی نظر آنے والی یہ مشین کس طریقہ سے معاشرے پربڑے بڑے اثرات چھوڑ رہی ہے اس کا اندازہ لگا نامشکل نہیں ہے اکثر مقامات پر قابل اعتراض فلمیں اور تصاویر چند روپوں کے عوض فراہم کئے جارہے ہیں جس سے نوجوان نسل بے راہ روی کا شکارہورہی ہے اور ایسے حالات میں والدین بھی اپنے بچوں پر نظر رکھنے سے قاصر ہیں۔ چند ہفتے قبل فیصل آباد کے دومختلف مدارس میں تین بچوں کو مبینہ طورپر بدفعلی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا پولیس نے ان قاتلوں کو گرفتارتو کر لیا جو کہ انہی مدارس کے طالب علم تھے مگر صرف طلباء کی حراست ان تمام مسائل کا حل نہیں ہے ایسے حالات اسی صورت قابومیں آسکیں گے جب پورامعاشرہ اپنا کردار اداکرے گا پاکستان میں اس وقت یہ سٹیٹس بن چکا ہے کہ والدین اپنے نابالغ بچوں کو موبائل فون اور لیپ ٹاپ وغیرہ دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں یہ جانے بغیرکہ کے چھوٹی سے مشین کس حد تک اس کے بچوں ، گھر اور معاشرے کے حالات میں بگاڑ پیداکرسکتی والدین سے چھپ کر بچے جب اپنی مرضی کی ویڈیوز اورتصاویر دیکھیں گے اور قابل اعتراض کہانیاں پڑھیں گے توان کے دماغ میں پیداہونے والے انتشارکو کسی صورت نہ تو دیکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کو روکا جاسکتے ہیں آپ کسی شخص کے چلنے پھرنے پر تو نظر رکھ سکتے ہیں مگر اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے اس بابت یا تو خدائے بزرگ و برتر جانتا ہے یا وہ شخص خود اپنے حالات سے واقف ہوتا ہے۔

ٹی وی ڈرامے، تعلیمی ادارے ، مساجد اور مدارس ایسے ذرائع تھے جو نوجوان نسل کی تعلیم وتربیت میں اہم کردار اداکررہے تھیاگرحالات پر نظردوڑائیں تو نظرآئے گا کہ یہ تمام ذرائع اپنا اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام نظرآرہے ہیں اور ہرطرف صرف اور صرف پیسے کی دوڑنظر آرہی ہے۔ پاکستان میں پیش کئے جانے والے اکثر ڈراموں میں خاندانوں کے لئے پیغامات ہواکرتے تھے مگر ا بھی کہانیاں ایسی ہیں کے ساس بہوکے خلاف سازش کرتی نظر آتی ہے اور نوجوان شراب اور بری محفلوں کے دلدادہ دکھائے جا رہے ہیں۔ ڈراموں میں دکھائے جانے والے مناظربھی نئی نسل کو تباہ کر رہے ہیں۔ تعلیمی اداراوں میں بھی اخلاقی تربیت کے مواقع نہیں ہے والدین بھی اپنے بچوں کی اخلاقی تربیت سے عاری نظرآتے ہیں معاشرے نے بھی اپنا کردار ادا کرنا چھوڑ دیا ہے اور کہتے ہیں کہ کوئی کچھ بھی کرے ہمیں اس سے کیا لینا دینا۔
علماء حضرات مساجد اور مدارس میں قران پاک پڑھانے کے ساتھ ساتھ دین اور اخلاق کی تربیت بھی دیتے تھے مگر اب حالات اس کے برعکس ہیں۔ تعلیمی اداروں میں اسمبلی کی صورت میں طلباء کے لئے اخلاقی تربیت کا کام کیا جاتا تھا کافی حد تک نصاب بھی تبدیل کیا جاچکا ہے اور ہمارے سلیبس میں انگریزی کہانیوں نے لے لی ہے۔ خوراک میں بھی ایسی چیزیں شامل ہوگئی ہیں جو بچوں کو وقت سے پہلے بالغ کر رہی ہیں اور اس میں چکن سرفہرست ہے۔اب دس سال سے بچے اور بچیا ں بالغ ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ بچے پاکستان کا مستقبل ہیں مگر اس مستقبل کو محفوظ کرنے کے حوالے سے ہم لوگ کتنے لاپرواہ ثابت ہورہے ہیں اس بارے ہم اگر اردگرد کے حالات پر نظر دوڑائیں تو حقیقت عیاں ہو جائے گی والدین کی اکثریت اپنے بچوں کے تعلیمی اداروں کے ماحول سے یکسر واقف نہیں ہیں تعلیمی اداروں کے سربراہان یا منتظمین والدین سے تو ہر طرح کی مطلوبہ معلومات حاصل کرلیں گے مگر یہ خال خال ہی ہوتا ہے کہ والدین کو بھی موقع دیں کہ وہ تعلیمی اداروں کے ماحول کاجائزہ لے سکیں۔ بچوں کے تحفظ کے معاملات میں پولیس بھی مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے اوراکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ کسی بھی بچے کی گمشدگی کی صورت میں اس کے والدین کو کہہ دیا جاتا ہے کہ بچے کو اپنے طورپر گلی محلے ، رشتہ داروں یا اس کے دوستوں کے ہاں تلاش کریں اگر نہ مل سکے تو پھر پولیس کو اطلاع کی جائے ایسے حالات میں کئی جگہوں پر دیکھا گیا ہے کہ یا تو بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کردیا گیا یاان کی گمشدگی کے بارے علم نہیں ہو سکا اگر پولیس کسی بچے کے اغواء کا مقدمہ درج بھی کرلے تو ہمارے میڈیا کے بہت سے دوست بچے کی سیکورٹی کو مدنظررکھے بغیر اس کو خبر بنا لیتے ہیں جس سے بچے کی زندگی کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں اور اغواء کار پکڑے جانے کے ڈر سے بچے کو ہلاک کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں دوعشرے قبل لاہورمیں جاوید اقبال نامی ایک شخص پکڑاگیا تھا جس پر الزام تھا کہ وہ بچوں کو اغواء کرنے کے بعد ان کو جنسی تشدد کا نشانہ بناکر ہلاکر دیتا اور ان کی باڈی کو کسی کیمیکل والے ڈرم میں ڈال دیتا جس میں اس کا تما م جسم تحلیل ہو جاتا اس کی حراست بھی جاوید کے ساتھ منسلک دیگر افراد کو پکڑنے کی بجائے اس کو مبینہ طور پر ٹھکانے لگا دیا گیا اور میڈیا کو خبر فراہم کر دی گئی کہ اس نے خودکشی کر لی ہے اگر اتنے سفاک مجرم کی حفاظت کو پولیس یقینی بنا سکتی تو باقی ملزمان کے حوالے سے کچھ کہنا بے معنی ہوگا۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ بچوں کی حفاظت کے لئے ایک الگ سے اتھارٹی قائم کرے جس کا مقصدصرف بچوں سے متعلق معاملات کو دیکھنا ہو اور یہ اتھارٹی مکمل طورپر بااختیار ہو اور اس کے مقدمات کے انداراج اورملزمان کی گرفتاری تک کے مکمل اختیارات دئے جائیں اگر لوگوں کی جان ومال کی حفاظت کے لئے ڈولفن فورس، مجاہد فورس یا سیف سٹی جیسے پراجیکٹس بنائے جا سکتے ہیں تو بچوں کی حفاظت کے لئے خصوصی انتظاما ت کیوں نہیں ہو سکتے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن