زینب کے لواحقین سے معاہدے پر عملدرآمد ہوتا تو صورتحال خراب نہ ہوتی
لاہور (فرخ سعید خواجہ) بابا بلھے شاہ کے شہر سے اغوا ہونیوالی کمسن بچی زینب کو زیادتی کے بعد قتل کئے جانے کے چوتھے روز بھی قصور سراپا احتجاج رہا۔ پولیس ملزمان کو گرفتار کرنے میں ناکام ہے جبکہ حکومتی اکابرین مدعیوں کو تسلی تشفی کرانے کیلئے سرگرم ہیں۔ شہریوں کے احتجاج کے پیچھے بعض مقامی بااثر افراد ہیں جبکہ مدعیوں اور سابق ڈی پی او قصور کے درمیان 9 جنوری کی رات ساڑھے بارہ بجے تین نکاتی معاہدہ طے پانے کے بعد مدعی احتجاج ختم کروا کر میت گھر لے گئے لیکن اس معاہدے پر عملدرآمد کس نے ناکام بنایا جس سے بچی کی نماز جنازہ کے بعد قصور میں احتجاج کے دوران 2 لوگوں کی جان چلی گئی۔ 9 جنوری کو شام پانچ چھ بجے زینب کی لاش ملی جسے زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور لوگ لاش لے کر سڑکوں پر آ گئے۔ تاجروں نے دکانیں بند کر دیں اور احتجاج شروع ہو گیا۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف کے سابق معاون لائیوسٹاک ڈیری ڈویلپمنٹ ملک خادم قصوری مقتولہ زینب کے وارثان کے پاس پہنچے اور زینب کے چچا عمران انصاری، اشفاق انصاری اور قریبی عزیز مقصود صابر انصاری کو آمادہ کیا کہ ڈی پی او قصور سے بات کرتے ہیں۔ ملک خادم قصوری نے ڈی پی او قصور ذوالفقار احمد سے اس سلسلے میں رابطہ کیا۔ ملک خادم قصوری کی قیادت میں عمران انصاری، اشفاق انصاری اور مقصود صابر انصاری نے ڈی پی او ذوالفقار احمد سے مذاکرات کئے جو دو گھنٹے جاری رہے۔ تین نکاتی معاہدہ طے پایا جس کے مطابق ڈی پی او صبح ایس ایچ او اے ڈویژن حاجی محمد اکرم اور ایس ایچ او صدر قصور ملک طارق کو معطل کرنے کا حکم جاری کریں گے۔ دوسرے اس مقدمے کی تفتیش کے لئے ایس ایچ او چونیاں حاجی اشرف کو ایس ایچ او اے ڈویژن لگائیں گے۔ تیسرے حکومت پنجاب کو خط لکھیں گے کہ جے آئی ٹی بنائی جائے جس میں آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی اور سپیشل برانچ کے نمائندے شامل ہوں۔ وفد کی میٹنگ رات ساڑھے بارہ بجے ختم ہوئی اور اس وفد نے احتجاج ختم کروا دیا اور زینب کی میت گھر لے گئے۔ صبح ملک خادم قصوری کی قیادت میں وفد ڈی پی او آفس پہنچا تاکہ تحریری احکامات جاری کروائے جائیں وہاں اس وقت آر پی او ذوالفقار حمید آ گئے۔ انہوں نے بھی تینوں مطالبات سے اتفاق کیا اور تحریری حکمنامہ کا انتظار کرنے کیلئے کہا۔ دو گھنٹے گزر گئے لیکن تحریری آرڈر جاری نہ ہوا۔ نماز جنازہ میں ڈاکٹر طاہرالقادری کی تقریر شاید جذبات نہ بھڑکا سکتی اگر معاہدے پر عملدرآمد ہو جاتا۔ اس واقعہ نے پچھلے ایک سال میں ہونے والے گیارہ ایسے ہی واقعات کا زخم بھی ہرا کر دیا۔ پچھلے گیارہ زیادتی اور قتل کے واقعات میں اس وقت کے ڈی پی او ناصر علی رضوی نے پانچ افراد کو پولیس مقابلے میں مار دیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر اُن میں سیریل قاتل تھا تو اب یہ قاتل کون ہے؟ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد کا کیا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا گیا؟ اگر سابق ڈی پی او نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا اور زیادتی قتل والی بچیوں کے وارثان کے ساتھ مل کر پریس کانفرنسیں سستی شہرت کیلئے کیں تو کیا اس کی انکوائری نہیں ہونی چاہئے؟ یہاں یہ سوال بھی ہے کہ دو سال پہلے حسین خان والا میں 280 بچوں کے ساتھ زنا بالجبر اور ویڈیو کے ذریعے پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کرنے والے ملزمان کے خلاف مقدمہ دہشت گردی کی عدالت سے عام عدالت میں کیوں منتقل ہوا۔ ملوث ملزمان کی رہائی میں پولیس، محکمہ پراسیکیوشن سمیت کون سے ادارے اور کون سے سیاستدان ملوث ہیں، خادم پنجاب شہباز شریف اس کا جائزہ لیں گے۔ یہ سوال بھی اُٹھتا ہے کہ ایک مسلم لیگی سینئر کارکن ملک خادم قصوری جو 1999ء سے مسلم لیگ ن کے ساتھ وابستہ ہیں اور صورتحال کی بہتری میں اہم کردار ادا کر رہے تھے، ان کو استعمال کرنے کی بجائے دیگر اکابرین کو بھجوانا کیا عقلمندی ہے؟ احتجاج کے دوران فائرنگ اور مظاہرین کو اُکسانے میں جو مقامی افراد ملوث ہیں جن میں ایک سابق بیوروکریٹ بھی شامل ہے، خفیہ اداروں کے علم میں کیوں نہیں آیا؟