بھارتی سپریم کورٹ کے4 سینئر ججز نے چیف جسٹس کے خلاف بغاوت کر دی
نئی دہلی (نیٹ نیوز+ ایجنسیاں+ نیوز ڈیسک) بھارتی تاریخ میں پہلی مرتبہ اعلیٰ عدلیہ میں پھوٹ پڑ گئی۔ سپریم کورٹ کے 4 سینئر ججز نے چیف جسٹس دیپک مشرا کیخلاف بغاوت کرتے ہوئے گزشتہ روز نئی دہلی پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے چیف جسٹس پر اقربا پروری کا الزام عائد کیا اور کہا کہ مخصوص کیسز جونیئر ججز کو دیئے جا رہے ہیں جو عدالتی نظام پر سوالیہ نشان لگا رہا ہے۔ اس کے علاوہ بعض انتظامی معاملات درست انداز میں نہیں چلائے جا رہے۔ جسٹس چلا شپیشمر، جسٹس ریخن گگوئی، جسٹس مدن لوکر اور جسٹس کرین جوزف نے کہا کہ چیف جسٹس دیپک مشرا عدالتی اصولوں کیخلاف اپنے پسندیدہ ججوں کو مخصوص کیسز دے رہے ہیں۔ عدلیہ کے ادارے کو تحفظ نہ ملا تو جمہوریت خطرے میں ہو گی، آزاد عدلیہ کے بغیر بھارت میں جمہوری نظام برقرار نہیں رہ سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے چیف جسٹس سے بات کر کے معاملہ سلجھانے کی کوشش کی، ہم نہیں چاہتے کہ ہم پر الزام لگے کہ عدلیہ کیلئے آواز نہیں اٹھائی گئی، ہم نہیں چاہتے کہ ہم پرضمیر فروشی کے الزامات لگیں۔ بھارتی سپریم کورٹ کے چاروں ججوں نے چیف جسٹس کو لکھا خط بھی صحافیوں کو پیش کر دیا جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ بھارتی اعلیٰ عدلیہ میں بعض اہم امور قواعد کے مطابق نہیں چلائے جا رہے جس سے عدلیہ کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔ انہوں نے چیف جسٹس کے بعض احکامات پر تحفظات کا بھی اظہار کیا اور کہا کہ مسائل سے نمٹنے کے اقدامات کا کہا لیکن چیف جسٹس نے توجہ نہیں دی۔ خط میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی وجہ سے ہائیکورٹس کی آزادی متاثر ہوئی، سپریم کورٹ کے انتظامی امور بھی متاثر ہوئے، سپریم کورٹ کے فیصلوں نے انصاف کی فراہمی کا نظام متاثر کیا، سپریم کورٹ کے مزید 2 ججوں کی چاروں ججوں کا ساتھ دینے کی اطلاعات ہیں۔ بھارتی ججوں کی بغاوت کے بعد وزیراعظم مودی سرگرم ہو گئے اور انہوں نے وزیر قانون روی شنکر پرشاد سے ملاقات کی اور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرری پر تبادلہ خیال بھی کیا۔ بی بی سی کے مطابق بھارتی تاریخ میں یہ پہلی بار ہے کہ سپریم کورٹ کے 4 ججز نے چیف جسٹس کیخلاف پریس کانفرنس کی۔ بھارتی اعلیٰ عدلیہ کے ججز عموماً میڈیا سے دور رہتے ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ کے دوسرے سینئر جج جسٹس جے چلا شپشمر نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ہم چاروں جج اس بات پر متفق ہیں اگر سپریم کورٹ کا ادارہ نہ بچا تو اس ملک میں جمہوریت نہیں بچ سکے گی اور نہ ہی کسی اور ملک میں اور منصف عدلیہ اچھی جمہوریت کی جانب اشارہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری تمام تر کوششیں بے سود ثابت ہوئیں ہم آج (جمعہ) کی صبح بھی چیف جسٹس مشرا کے پاس گئے اور ان سے معاملات سلجھانے کی درخواست کی مگر ان کے ساتھ کئی پوائنٹس پر اتفاق نہیں ہو سکا اس کے بعد ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا کہ ملک کو بتایا جائے کہ عدلیہ کا خیال کرو۔ جسٹس سپیشمر نے کہا کہ میں نہیں چاہتا 20 برس بعد لوگ کہیں کہ ہم چاروں ججز نے ضمیر بیچ دیا۔ چیف جسٹس کا مواخذہ کرنے والے ہم نہیں۔ واضح رہے کہ چیف جسٹس دیپک مشرا کے عہدے کی مدت اکتوبر میں ختم ہو گی اس کے بعد سینئر ترین جج جسٹس رنجن گگوئی نے عہدہ سنبھالنا ہے مگر انہوں نے ہی بغاوت کر دی۔ چار سینئر ججز کی پریس کانفرنس سے بھارت بھر کے سیاسی قانونی حلقوں میں تھرتھلی مچ گئی۔ واضح رہے کہ کچھ عرصہ سے حکومت اور اس میں شامل رہنماؤں سے متعلق مقدمات میں سخت فیصلے آنے پر بھارتی چیف جسٹس کو مودی سرکار کی واضح تنقید، ناپسندیدگی اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جسٹس دیپک مشرا کو اب سے ڈیڑھ ماہ قبل نئی دہلی میں تقریب کے دوران مخاطب کرتے ہوئے بھارتی وزیر قانون روی شنکر پرشاد نے عدلیہ کو اپنی حدود میں رہنے کی تاکید کی تھی۔ ان سے قبل تقریب کے مہمان خصوصی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے قدرے دبے دبے الفاظ میں اعلیٰ عدلیہ کو لیکچر پلایا جبکہ بھارتی وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے تو کھل کر اپنی دو تین تقاریر میں اعلیٰ عدلیہ کے لتے لئے۔ سنجیدہ بھارتی قانونی حلقے خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے مخصوص مفادات کے لئے تاریخ میں پہلی مرتبہ بھارت کی اعلیٰ عدلیہ میں پھوٹ ڈلوا دی ہے۔ بھارتی عدلیہ کا یہ بحران آنے والے دنوں میں مزید سنگین ہو گا۔ بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے سپریم کورٹ کے 4 ججز کی پریس کانفرنس پر ردعمل میں کہا کہ ججز نے جو معاملات اٹھائے اور الزامات لگائے ان پر سنجیدگی سے توجہ دینے اور آزادانہ چھان بین کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان ججز نے سی پی آئی عدالت کے جج جسٹس بی ایچ لوئیا کی پراسرار موت پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہئے، بھارتی اٹارنی جنرل وینو گوپال نے چیف جسٹس سے ملاقات کے بعد کہا کہ ججز کو پریس کانفرنس نہیں کرنی چاہئے تھی۔