• news
  • image

نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز کارکردگی لمحہ فکریہ

چودھری اشرف

2017ء کا سال پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے انتہائی شاندار رہا۔ جس کی بنا پر 2018ء میں بھی ٹیم سے بلند توقعات کی امیدیں پوری قوم نے باندھ رکھی ہیں۔ بدقسمتی سے2018ء کی ابتداء دورہ نیوزی لینڈ سے ہوئی ہے۔ جس میںقومی ٹیم نے پانچ ایک روزہ انٹر نیشنل میچز کے علاوہ تین ٹی ٹوئنٹی میچز کی سیریز میں حصہ لینا ہے۔ ون ڈے سیریز کے ابتدائی دونوں میچوں میں پاکستان ٹیم کو برُی شکستوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جس کی بڑی ذمہ داری بلے بازوں پر خاص طور پر سینئرز پر عائد ہوتی ہے۔ جبکہ اس کے ساتھ بائولرز کی کارکردگی بھی کوئی خاص نہیں رہی۔ کہ کہا جا سکے کہ بائولرز نے بڑی محنت کی ہے۔ سیریز کے ابتدائی دو میچوں میں میزبان ٹیم کی کامیابی کے بعد اس کے سیریز جیتنے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ تاہم پاکستان ٹیم کے لیے کم بیک کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ کپتان سرفراز احمد جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک نڈر کپتان ہیں انہیں بھی کارکردگی دکھانا ہو گی بجائے اپنے بیٹنگ نمبر کو نیچے لے جانے کے انہیں فرنٹ پر آکر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ سرفراز احمد جنہیں آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی جیتنے کے بعد پوری قوم کی سپورٹ حاصل ہے ۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنی کارکردگی میں بہتری لائیں۔ ورنہ پاکستانی شائقین جو کرکٹ کے معاملے میں بہت زیادہ جذباتی ہیں انہیں بھی تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیں گے۔ کئی حلقوں میں اس پر آوازیں بھی اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔ جہاں کہا جا رہا ہے کہ سرفراز احمد کی اپنی کارکردگی کیا ہے۔ امید ہے سرفراز احمد اپنی خامیوں پر قابو پانے کی کوشش ضرور کر رہے ہوں گے۔ دوسری جانب اوپنر اظہر علی جو سابق کپتان بھی رہ چکے ہیں ان سمیت بابر اعظم‘ شعیب ملک ‘ محمد حفیظ کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ٹیم کے لیے پرفارم کرنا ہو گا۔ دو میچز کی شکست سے ابھی کچھ نہیں ہوا۔ پاکستان ٹیم کو اگلے تین میں سے کم از کم دو میچوں میں کامیابی حاصل کرنا چاہیے۔ یہ عین ممکن ہے اس کے لیے کھلاٰڑیوں کو ٹیم ورک کا مظاہرہ کرنا ہو گا جس کا گذشتہ سال چیمپئینز ٹرافی کے موقع پر کیا تھا۔ پاکستان ٹیم کا اصل ہتھیار ہمیشہ سے بائولنگ کا شعبہ رہا ہے۔ محمد عامر اس وقت پاکستان ٹیم کے اہم ترین بائولر ہیں۔ جبکہ ان کے ساتھ حسن علی ‘ رومان رئیس اور فہیم اشرف بھی موجود ہیں۔ شاداب خان سپن بائولنگ میں توقعات پر پورا نہیں اتر سکے ہیں انہیں نے پریکٹس میچ میں چار کھلاڑیوں کو آوٹ کیا تھا تاہم سیریز کے پہلے دونوں ایک روزہ میچوں میں وہ کسی کھلاڑی کو آوٹ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ پاکستانی کرکٹ حلقوں میں بعض ماہرین کی رائے تھی کہ ایسے موقع پر پاکستان کرکٹ ٹیم میں یاسر شاہ جیسے تجربہ کار بائولر کا ہونا ضروری تھا۔ کرکٹ کے فارمیٹ میں ٹی ٹین کا اضافہ ہونے کے بعد کھلاڑیوں نے اپنے شعبہ کو چھوڑ کر آل رائونڈرز بننے کی ٹھان لی ہے۔ جس کی ایک مثال حسن علی ہیں۔ جنہوں نے دبئی میں ہونے والے ٹی ٹین ایونٹ میں بطور آل رائونڈر نمائندگی کی تھی۔ اور ان کا بھی یہ کہنا تھا کہ انہوں نے بائولنگ کے علاوہ بیٹنگ پر توجہ دینا شروع کر دی ہے۔ اچھی بات ہے لیکن بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے ’’ کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا‘‘ ہمارے کھلاڑیوں کو پہلے اپنے شعبہ میں مہارت حاصل کرنی چاہیے کہ دنیا کے کھلاڑی اس کو مانیں۔ وسیم اکرم ‘ وقار یونس‘ عبدالقادر ‘ مشتاق احمد جیسے کھلاڑیوں کے نام آج بھی اس لیے پکارے جاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے شعبہ میں عمدہ کارکردگی سے نہ صرف اپنا بلکہ ملک کا نام روشن کیا۔ بہر کیف ابھی سیریز کے تین میچ باقی ہیں۔ توقع کی جا سکتی ہے کہ ہمارے ابھرتے ہوئے ہیروز کم بیک کریں گے۔ اور سیریز میں اچھی کارکردگی سے شائقین کرکٹ کے لیے فخر کا باعث بنیں گے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے سلیکشن کمیٹی کی سفارش پر نیوزی لینڈ کے خلاف تین ٹی ٹونٹی میچز کی سیریز کے لیے15رکنی سکواڈ کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ جس میں ایک مرتبہ بھی ڈومیسٹک کرکٹ میں مسلسل شاندار کارکردگی دکھانے والے کامران اکمل کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ احمد شہزاد کو سکواڈ کا حصہ بنایا گیا ہے۔ احمد شہزاد نے اپنے محکمہ کی جانب سے ون ڈے ٹورنامنٹ میں اچھی کارکردگی دکھائی ہے۔ جبکہ کامران اکمل کا سکور ان سے زیادہ ہے اس کے باوجود بھی انہیں نظر انداز کرنا نہ صرف حیران کن بلکہ سمجھ سے بالا ہے۔ ایسا دکھائی دے رہا ہے۔ سلیکشن کمیٹی اور ٹیم کے کپتان ایک پیج پر نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے کارکردگی دکھانے والے کھلاڑی نظر انداز ہو رہے ہیں۔ دورہ نیوزی لینڈ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے سال بھر میں ہونے والی دیگر سیریز کے لیے آپ کو اعتماد ملے گا۔ سیریز کے ابتدائی دونوں میچز میں پاکستان ٹیم کو شکست ڈک ورتھ لوئس قانون کے تحت ہوئی۔ پہلے میچ میں نیوزی لینڈ ٹیم نے 315 رنز کا مجموعہ حاصل کیا تھا جواب میں پاکستان ٹیم نے 30.1 اوورز میں 6 وکٹوں کے نقصان پر 166 رنز بنائے تھے کہ بارش کے باعث دوبارہ کھیل شروع نہ ہو سکا۔ اس میچ میں پاکستان کے اوپنر فخر زمان نے ناقابل شکست 82 رنز کی اننگز کھیلی تھی۔ پاکستان اس میچ میں مشکلات سے دوچار تھی تاہم بارش کی وجہ سے نیوزی لینڈ 61 رنز کے مارجن سے کامیاب ہو گئی۔ پہلے میچ میں ناکامی کے بعد توقع تھی کہغ دوسری میے میں پاکستان ٹیم کم بیک کرتے ہوئے کامیابی حاصل کرئے گی لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا۔ سیریز کے دوسرے میچ میں پاکستان ٹیم کے سینئر کھلاڑی بری طرح ناکام ہوئی جس میں پریکٹس میچ میں سنچری سکور کرنے والے اظہر علی دو میچوں میں صرف 12 رنز بنا سکے۔ بدقسمتی سے اس میچ میں فخر زمان فٹنس مسائل سے دو چار ہو کر میچ سے باہر ہو گئے۔ اس میچ میں محمد حفیظ نے کیوی باولرز کے سامنے ڈٹنے کی کوشش کی تاہم دیگر سینئر کھلاڑیوں میں سے کسی نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز احمد نے دو میچوں میں 11 رنز سکور کیے ہیں جبکہ ان کی جانب سے وکٹوں کے پیچھے کیچ بھی چھوڑے گئے ہیں۔ اگر ایک ٹیم کا کپتان خود پرفارم نہیں کرئے گا تو دیگر کھلاڑیوں سے کس طرح کام لینگے۔ پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان ایک سو ون ڈے میچز کھیلے جا چکے ہیں جن میں سے 53 میچز میں پاکستان ٹیم نے کامیابی حاصل کر رکھی ہیں جبکہ رواں سیریز کے دو میچز کی کامیابی سے نیوزی لینڈ کی کامیابی 44 میچز کی ہو گئی ہے۔ پاکستان ٹیم کو سیریز میں کم بیک کرنے کے لیے جہاں بورڈ پر بڑا سکور بنانا ہوگا وہیں پر میزبان ٹیم کے گپٹل اور ویلمسن کو قابو کرنا ہوگا دونوں کھلاڑی بیٹنگ کے شعبہ میں پاکستان ٹیم کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں جسے بجنے سے روکنا ہوگا۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن