سندھ اسمبلی اجلاس تاخیرسے شروع ہونے پر سپیکر کا ارکان پر اظہار برہمی
کراچی (اے پی پی) سندھ اسمبلی کا اجلاس جمعہ کے روز اسپیکر آغا سراج درانی کی صدارت میں منعقد ہوا، اجلاس مسلسل تاخیر سے شروع ہونے پر اسپیکر نے ارکان پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ روزانہ کا معمول بن گیا ہے کہ اجلاس ڈیڑھ دو گھنٹے دیر سے شروع ہوتا ہے ۔ ارکان وقت پر نہیں آتے ہیں ۔ اگر ارکان چاہیں تو اسمبلی کا وقت تبدیل کر دیتے ہیں اور اجلاس دوپہر میں شروع کر دیتے ہیں۔ سپیکر نے اجلاس کے دوران ارکان پر سختی کی اور کہا کہ وہ قواعد کا خیال رکھیں ۔ اجلاس میں قصور کی معصوم بچی زینب کے واقعہ کے ساتھ ساتھ کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری میں زیادتی کے واقعہ پر بھی بات چیت کی گئی ۔ ایم کیو ایم کی خاتون رکن عائشہ خاتون نے کہا کہ اس طرح کے درندوں کو سرعام پھانسی دی جائے ۔ پیپلز پارٹی کی خاتون رکن اور وزیر اعلیٰ سندھ کی معاون خصوصی ارم خالد نے ابراہیم حیدری کے واقعہ کی وضاحت کرنا چاہی لیکن اسپیکر نے اجازت نہیں دی اور کہا کہ میں وقفہ سوالات کا اعلان کر چکا ہوں ۔ حزب اختلاف کے ارکان سندھ اسمبلی کو فنڈز نہ دینے سے متعلق پاکستان تحریک انصاف کے رکن خرم شیر زمان کی تحریک استحقاق جمعہ کو سندھ اسمبلی کے اجلاس میں خلاف ضابطہ قرار دے دی گئی ۔ حکومت نے یہ موقف اختیار کیا کہ کسی بھی سرکاری یا اپوزیشن کے رکن کو فنڈز جاری نہیں کیے جا رہے ۔ لہذا فنڈز نہ ملنے پر کسی کا استحقاق کیسے مجروح ہو سکتا ہے ۔ سینئر وزیر نثار احمد کھوڑو نے اس تحریک استحقاق کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی رکن کو ترقیاتی فنڈز جاری نہیں کیے جاتے ۔ گورنر سندھ محمد زبیر عمر نے سندھ اسمبلی کے منظور کردہ 6 بلز کی توثیق کر دی ہے ۔ اس بات کا اعلان جمعہ کو سندھ اسمبلی میں اسپیکر آغا سراج درانی نے کیا ۔ جن بلز کی توثیق کی گئی ہے ، ان میں سندھ سول سرونٹس ( ترمیمی ) بل 2017 ، سندھ سیف بلڈ ٹرانسفیوژن بل 2017 ، سندھ اکیوپیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ بل 2017 ، سندھ لائیو اسٹاک رجسٹریشن اینڈ ٹریڈ اتھارٹی بل 2017 ، جیک آباد انسٹی ٹیوٹ میڈیکل سائنسز ( ترمیمی ) بل 2017 ، شہداد پور انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائسنز ( ترمیمی ) بل 2017 شامل ہیں ۔ سندھ اسمبلی کے اجلاس میں سندھ انسٹی ٹیوٹ آف ٹراماٹولوجی ، آرتھوپیڈکس اینڈ ری ہیبلی ٹیشن کے قیام سے متعلق بل کی منظوری پیر تک موخر کر دی ۔ سندھ میں گذشتہ سال 2017 ء میں 1894 بچے لاپتہ ہوئے ۔ اس بات کا انکشاف خاتون رکن نصرت سحر عباسی نے اپنے توجہ دلاؤ نوٹس پر کیا ۔ انہوں نے کہاکہ اتنی بڑی تعداد میں بچوں کے لاپتہ ہونے کا معاملہ انتہائی تشویشناک ہے ۔ حکومت سندھ کو اس کا نوٹس لینا چاہئے اور ان بچوں کی بازیابی کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں ۔ انہوں نے لاپتہ بچوں کی تفصیلات پیش کرنے کیلئے بھی حکومت سندھ پر زور دیا ۔ حکومت سندھ کی طرف سے وزیر اعلیٰ سندھ کی مشیر برائے سماجی بہبود شمیم ممتاز نے لاپتہ بچوں کے ان اعدادو شمار کی تصدیق نہیں کی لیکن ایوان کو بتایا کہ حکومت لاپتہ بچوں کی بازیابی کے لیے سنجیدگی سے کام کر رہی ہے ۔