• news

مسلم لیگ ن کا اقتدار ختم: ق لیگ کے عبدالقدوس بزنجو وزیر اعلیٰ بلوچستان منتخب

کوئٹہ( بیورو رپورٹ +ایجنسیاں ) ق لیگ کے عبدالقدوس بزنجو نئے وزیراعلی بلوچستان منتخب ہوگئے۔ 65 رکنی ایوان میں سے وزیراعلی کے انتخاب کیلئے 54 ارکان نے ووٹ ڈالے۔ اپوزیشن اتحاد کے عبدالقدوس بزنجو 41 ووٹ لیکر وزیر اعلیٰ بلوچستان منتخب ہو گئے۔ انکے مد مقابل پشتونخوا میپ کے سید لیاقت علی آغا نے13 ووٹ حاصل کئے۔ بلوچستان اسمبلی کا اجلاس سپیکر راحیلہ حمید درانی کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس کے آغاز میں قصور میں قتل ہونے والی کمسن زینب اور ایئرمارشل (ر)اصغر خان سمیت کوئٹہ دھماکے کے شہدا کیلئے فاتحہ خوانی کی گئی۔اس کے بعدسپیکر نے ارکان کو قائد ایوان کے انتخاب کا طریقہ کار بتایا جس کے بعد نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے رائے شماری کی گئی جس میں (ق) لیگ کے عبدالقدوس بزنجو کو 16واں قائد ایوان منتخب کرلیا گیا۔ 65رکنی ایوان میں وزیراعلی منتخب ہونے کیلئے 33 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔وزیر اعلی کے انتخاب کیلئے تین امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور کئے گئے جن میں ق لیگ کے میر عبدالقدوس بزنجو جبکہ پشتونخوا میپ کے دو امیدوار عبدالرحیم زیارتوال اور سید لیاقت علی آغا شامل تھے۔ تاہم انتخاب سے قبل عبدالرحیم زیارتوال اپنی پارٹی کے امیدوار سید لیاقت آغا کے حق میں دستبردار ہوگئے جس کے نتیجے میں دو امیدواروں میں وزارت اعلیٰ کے منصب کیلئے مقابلہ ہوا۔ میر عبدالقدوس بزنجو کو اپوزیشن اتحاد کی حمایت حاصل تھی جس میں جمعیت علمائے اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی شامل ہیں۔اجلاس کے موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے اور سکیورٹی اہلکاروں کی بھاری نفری تعینات رہی جبکہ اسمبلی جانے والے راستے بھی بند کردئیے گئے۔ 2013 کے عام انتخابات میں عبدالقدوس بزنجو نے (ق) لیگ کے ٹکٹ پر انتخاب میں شمولیت کی اور پاکستان کی انتخابی تاریخ میں سب سے کم یعنی 544 ووٹ لیکر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ اس حلقے میں ڈالے گئے ووٹوں کا تناسب 1.8 فیصد رہا۔ عبدالقدوس بزنجو 2013 ء سے 2015ء تک صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر رہے، بعدازاں مستعفی ہو گئے۔ 10 ارکان نے ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لیا جبکہ سپیکر نے بھی ووٹ نہیں ڈالا اور غیرجانبدار رہیں۔ ذرائع کے مطابق جن 10ارکان نے ووٹ نہیں ڈالا ان میں زیادہ تعداد مسلم لیگ (ن) اور نیشنل پارٹی کی ہے۔ نومنتخب وزیراعلیٰ نے حلف اٹھا لیا۔ گورنر محمد خان اچکزئی نے ان سے حلف لیا۔ خیال رہے کہ نواب ثناء اللہ زہری نے اپنی ہی جماعت کے ناراض ارکان کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کئے جانے سے قبل ہی 9جنوری کو وزارت اعلیٰ کے منصب سے استعفیٰ دیدیا تھا۔ ایوان سے اپنے پہلے خطاب میں نومنتخب وزیراعلیٰ نے کہا کہ کسی غیرجمہوری عمل کا حصہ نہیں بنیں گے۔ 14رکنی نئی صوبائی کابینہ نے بھی حلف اٹھا لیا۔ چودھری شجاعت نے نومنتخب وزیراعلیٰ کو فون کیا اور عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی۔نو منتخب وزیر اعلی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے ایوان میں اپنی تقریر کے دوران ان کی حمایت کرنے والی صوبے کی تمام سیاسی جماعتوں کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا وہ انکی حمایت کرنے اور اس مہم کے دوران ساتھ دینے میں جے یو آئی(ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے بے حد مشکور ہیں۔نو منتخب وزیراعلیٰ نے کہا تمام سیاسی جماعتوں نے میرا بہت ساتھ دیا اور ارکان اسمبلی نے جمہوری عمل کو آگے بڑھایا۔ انہوں نے کہا انہوں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا جبکہ وزیراعلیٰ بننا ان کیلئے بہت بڑا اعزاز ہے۔انہوں نے واضح کیا صوبے میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی غیر جمہوری عمل نہیں اور نہ ہی ان کا نواب ثنا اللہ زہری سے کوئی ذاتی اختلاف ہے وہ قابل احترام ہیں۔ تحریک عدم اعتماد پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا ملازمتوں میں مسلم لیگ (ن) اور (ق) لیگ کے ارکان کو نظر انداز کیا گیا، ترقیاتی منصوبوں میں بھی ان 14 ارکان کو نظر انداز کیا گیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی جبکہ ہمارے مسائل اب تک حل نہیں ہوسکے ہیں۔ نومنتخب وزیراعلیٰ نے کہا میری آمدورفت کے دوران پروٹوکول کم سے کم رکھا جائے اور ٹریفک بند نہ کی جائے۔میری وجہ سے عوام کو تکلیف نہیں ہونی چاہئے۔ بیورو کریسی کے تاخیری حربے کسی صورت برداشت نہیں کروں گا۔ بلوچستان میں تعلیم، صحت اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی اوّلین ترجیحات میں شامل ہیں۔ وقت کم ہے مسائل زیادہ۔ محدود مدت میں صوبے کی بہتری کیلئے بہترین کردار ادا کروں گا۔ گوادر کے حوالے سے قانون سازی کی جائے گی۔ این این آئی کے مطابق ووٹنگ کے دوران چار ارکان اسمبلی نے اپنی پارٹیوں سے منحرف ہوکر مخالف امیدوار کی حمایت کی۔ میر عبدالقدوس بزنجو کو ووٹ دینے والوں میں اپوزیشن لیڈر مو لانا عبدالوسع، میر سرفراز بگٹی، شاہدہ رئوف، سردار صالح محمد بھوتانی، خلیل الرحمن دمڑ،میر خالد لانگو، عبدالمالک کاکڑ،حسن بانو رخشانی، کشور جتک، مفتی گلاب، منظور کاکڑ،مولوی معاذاللہ،میر عبدالکریم نوشیروانی، حاجی اکبر آسکانی، سرداردر محمد ناصر، محمد خان لہڑی،طاہر محمود خان، سید آغا رضا، امان اللہ نوتیزئی، پرنس احمد علی بلوچ،سردارسرفراز چاکر ڈومکی، مجیب الرحمن محمد حسنی، میر عامر رند، شیخ جعفر مندوخیل، نوابزادہ طارق مگسی، میر عاصم کردگیلو،عبدالماجد ابڑو،حاجی غلام دستگیر بادینی،ڈاکٹر رقیہ ہاشمی،راحت جمالی، ظفر اللہ زہری،انجینئر زمرک خان اچکزئی، میر اظہار حسین کھوسہ، نواب جنگیز مری، سردار اختر جان مینگل، سردار عبدالرحمان کھیتران، میر حمل کلمتی، جان محمد جمالی جبکہ انکے مدمقابل پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے سید لیاقت آغا کو عبید اللہ بابت،مجید خان اچکزئی، ڈاکٹر حامد اچکزئی، عبدالرحیم زیارتوال، نواب ایاز خان جوگیزئی،سردار رضا محمد بڑیچ،سردار مصطفی خان ترین، نصراللہ زیرے، عارفہ صدیق، سپوژمئی اچکزئی، معصومہ حیات نے ووٹ دئیے،اجلاس میں پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے رکن اسمبلی منظور خان کاکڑ نے اپنی پارٹی سے منحرف ہوکر مخالف رکن میر عبدالقدوس بزنجو کے حق میں ووٹ دیا جبکہ نیشنل پارٹی کی جانب سے نئے قائد ایوان کے انتخاب میں حصہ نہ لینے کے اعلان کے برعکس ارکان اسمبلی میر مجیب الرحمن محمد حسنی، میر خالد لانگو اور میر فتح محمد بلیدی نے بھی میر عبدالقدوس بزنجو کو ووٹ دیا۔ 14رکنی کابینہ میں مسلم لیگ (ن) کے 11 جبکہ ق لیگ، پشتونخواء ملی عوامی پارٹی اور مجلس وحدت المسلمین کے ایک ایک رکن شامل ہیں۔ میر عبدالقدوس بزنجو کی کابینہ کے 14ارکان میں مسلم لیگ (ن) کے میرسرفراز بگٹی، پرنس احمد علی، نواب چنگیز مری، سردارسرفراز چاکر ڈومکی،راحت جمالی، میر عاصم کرد گیلو،عبدالماجد ابڑو، حاجی غلام دستگیر بادینی، میر عامر رند،طاہر محمود خان، حاجی اکبر آسکانی ق لیگ کے شیخ جعفر مندوخیل، پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے منظور احمد کاکڑ اور مجلس وحدت المسلمین کے سید آغا رضا شامل ہیں۔ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کے اقتدار کا سورج ڈوب گیا۔ مسلم لیگ (ن) نے 2 سال 16 دن تک بلوچستان میں اپنی حکومت قائم رکھی جو سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کے استعفے کے بعد ختم ہوئی۔ اسلام آباد سے نمائندہ خصوصی کے مطابق پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بلوچستان کے نومنتخب وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کو مبارک باد دی ہے۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام نے مسلم لیگ (ن) سے صوبے کے عوام کو نظرانداز کرنے کا بدلہ لے لیا۔ ایک بار پھر ثابت ہوگیا مسلم لیگ (ن) کوئی نظریاتی نہیں بلکہ بلبلہ پارٹی ہے۔ 2018 مسلم لیگ (ن) کا ملک سے مکمل خاتمے کا سال ہے۔ بیورو رپورٹ کے مطابق نومنتخب و زیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے صوبائی کابینہ میں شامل صوبائی وزراء کے محکموں کا اعلان کردیا۔ ذرائع کے مطابق میر طاہر محمود خان کو تعلیم ، سردار سرفراز چاکر ڈومکی کو فشریز ، نواب جنگیز خان مری کو ایری گیشن اینڈ انرجی ، میر سرفراز احمد بگٹی کو ہوم اینڈ ٹرائبل افیئر اورپی ڈی ایم اے ، شیخ جعفر خان مندوخیل کو ایگریکلچر کواپریٹو ،میر عبدالماجد ابڑو کو صحت، راحت فائق جمالی کو لیبر اینڈ پاور اور انڈسٹریز اینڈ کامرس ،میر غلام دستگیر بادینی کو لوکل گورنمنٹ اینڈ رورل ڈویلپمنٹ اور اربن پی اینڈ ڈی ، سید محمد رضا کو لاء اینڈ پارلیمنٹری افیئر پراسیکیوشن ، فاریسٹ، ولڈلائف ،لائیو سٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ، میر محمد عاصم کرد گیلو کو سی اینڈ ڈبلیو ، منظوراحمد کاکڑ کو ریونیو ، پرنس احمد علی کو سائنس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور انوائرمنٹ شامل ہیں۔نومنتخب وزیراعلیٰ بلوچستان نے 4مشیروں کے ناموں اور محکموں کا اعلان بھی کردیا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق میر عبدالکریم نوشیروانی کو مشیر برائے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن اور ٹرانسپورٹ، ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی مشیر برائے خزانہ ،میرامان اللہ نوتیزئی مشیر برائے پی ایچ ای ڈی ، سی ڈی ڈبلیو اے ،واسا اورانوارالحق کاکڑ کو مشیر برائے انفارمیشن نامزد کیا ہے۔بیورو رپورٹ کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا ہے اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کریگی۔ سینٹ اور عام انتخابات مقررہ وقت پر ہونگے۔ صوبے میں دہشت گردی کسی صورت برداشت نہیں کی جائیگی۔ مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی اپنی پارٹی پالیسی کے مطابق چلیں گے۔ بلوچستان اسمبلی کے باہر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا میں یہ بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ قبل از وقت انتخابات اور سینٹ انتخابات روکنے کا کوئی منصوبہ نہیں۔ پچھلی حکومت نے جو کچھ کیا‘ اس سے مجھے کوئی سروکار نہیں۔ ہمیں اپنا کام اچھے طریقے سے کرکے دکھانا ہے۔ جو بھائی ناراض ہوکر بیرون ملک بیٹھے ہیں‘ ان سے بات چیت کی جا سکتی ہے اور انہیں دوبارہ قومی دھارے میں لاکر عزت کا مقام اور برابر کے شہری حق دیا جائیگا۔ میں اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے کسی بھی قسم کا دبائو قبول نہیں کروں گا اور اسکی بھرپور مزاحمت کروں گا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کی تقریب حلف برداری میں انکے والد لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ تقریب حلف برداری میں سابق وزیراعلیٰ بلوچستان و رکن اسمبلی نواب ثناء اللہ خان زہری اور نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما و سابق وزیراعلیٰ بلوچستان و رکن اسمبلی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سمیت نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے کسی بھی رکن اسمبلی نے شرکت نہیں کی۔ دوسری طرف (ق) لیگ کی رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر رقیہ ہاشمی کو ڈپٹی سپیکر بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ڈپٹی سپیکر کا عہدہ گزشتہ دو سال سے خالی ہے۔ دریں اثنا (ق) لیگ کے صوبائی جنرل سیکرٹری رکن صوبائی اسمبلی میر عبدالکریم نوشیروانی نومنتخب وزیراعلیٰ بلوچستان اور کابینہ کی حلف برداری کی تقریب سے ناراض ہوکر چلے گئے۔ ذرائع کے مطابق ناراضگی کی وجہ میر عبدالکریم نوشیروانی کو کابینہ میں شامل نہ کیا جانا بتائی جا رہی ہے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں ایک بحران ختم ہونے کے بعد دوسرے کا آغاز ہو گیا۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگی سپیکر کیخلاف بھی محاذ بن گیا اور تحریک عدم اعتماد لانے پر مشاورت جاری ہے۔ نئے سپیکر کیلئے جان محمد جمالی اور صالح بھوتانی کے نام زیرغور ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن