چیف جسٹس اور یکساں نظام تعلیم
چیف جسٹس پاکستان، جناب میاں ثاقب نثار نے میڈکل کالجوں میں داخلہ پالیسی کے حوالے سے ایک اپیل کی سماعت کے دوران، جس میں مختلف نظامہائے تعلیم سے آنے والے بچوں کے درمیان مقابلہ اور امتیازات کے امور زیر بحث تھے، تعلیم کے سلسلے میں ریاست کی آئینی ذمہ داریوں کا ذکر کرتے ہوئے چند اہم ترین اشارات بیان کیے ہیں۔ آپ کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 25A کے تحت ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ ملک کے تمام بچوں کو میٹرک تک مفت تعلیم فراہم کرنے کا انتظام کرے۔ ہمیں اس آرٹیکل کی روشنی میں اپنے تعلیمی نظام سے امتیازی اور عدم مساوات پر مبنی اوصاف کو ختم کرنا ہو گا۔ اس ملک کے سارے بچوں کیلئے یکساں نظام تعلیم جاری کرنا ہوگا جو ایک نصاب اور ایک یونیفارم پر مبنی ہو۔ تعلیم کے میدان میں کوئی تفریق نہیں ہونی چاہیے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر ہم آرٹیکل 25A کو نافذ نہیں کرتے تو پھر اس کی حیثیت ہمارے آئین کی سبز کتاب میں محض نمائشی رہ جائیگی۔چیف جسٹس صاحب کے ان فرمودات کو سن کر ہمارے کانوں میں نغمے گونجنے لگے اور بے اختیار ہمارے دل نے کہا:
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
ہم سمجھتے ہیں کہ ان خیالات کا برملا اظہار کرکے چیف جسٹس نے معاشرے میں تیزی سے سرایت کرتے ہوئے اس زہر کو روکنے کی کوشش کی ہے جو گذشتہ تین دہائیوں سے ہمارے سماجی جسم کو ہلاک کر رہا ہے۔ ایک قومی اور پھر اسلامی نظریاتی ریاست میں یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم اپنی دینی اور قومی تعمیر کرسکیں سوائے اس کے کہ ہم آنے والی نسلوں کو ایک مخصوص ذہنی اور اخلاقی سوچ اور پس منظر کا حامل بنائیں۔ تقسیم ہند سے پہلے بھی مسلمانان ہند ایک ذہنی خلفشار کا شکار ہوگئے تھے جب علی گڑھ اور دیو بند کے دو علیحدہ نظام تعلیم میں سے انہیں کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا تھا۔ پاکستان کے بعد یہ تقسیم جاری رہی لیکن ایک انتہائی قلیل مقدار ان لوگوں کی تھی جو سرکاری سکولوں سے باہر نجی سکولوں سے تعلیم حاصل کرتے تھے اور جن کے امتحانات عموماً کیمبرج سسٹم کے تحت ہوتے تھے۔70 کی دہائی میں تعلیم کو قومیائے جانے کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس عظیم ذمہ داری کو احسن طریقے سے ادا نہ کر سکیں۔ عوامی دباؤ اور تنقید سے بچنے کی خاطر ان حکومتوں نے کسی اعلان اور قانون کو منظور کیے بغیر نجی شعبے کو اس میدان میں داخل ہونے کی اجازت دے دی۔ رفتہ رفتہ کم از کم شہری علاقوں تک حکومتیں اس میدان سے نکل گئیں اور اس کو نجی شعبے کے حوالے کر دیا گیا۔ وہ طبقات جن کی کوئی آواز نہیں ہے اور جو نجی شعبے کے سکولوں میں اپنے بچوں کو بھیجنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے اب صرف وہ سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن کا معیار بہت پست ہے کیونکہ نہ ان کے اساتذہ مطلوبہ قابلیت کے حامل ہیں اور نہ ہی سرکاری سکولوں میں مناسب سہولتیں میسر ہیں۔ دوسری جانب حکومت نے نجی شعبے کی قانونی نگرانی کا کوئی موثر نظام وضع نہیں کیا جس کی وجہ سے ان اداروں کی من مانیوں کی آئے دن خبریں ملتی رہتی ہیں۔
نظام تعلیم کی اس حالت زار نے معاشرے کو ایک خوفناک صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ یہ نظام ایک قوم کی تشکیل کے بجائے باہمی طور پر متصادم طبقات کی پرورش کر رہا ہے جو اربابِ حل و عقد ہیں وہ بظاہر اس تفاوت پر کچھ تشویش کا اظہار نہیں کرتے۔ اس کی وجہ ان کی کوتاہ نظری ہے۔ وہ یہ دیکھنے سے قاصر ہیں کہ یہ نظام بالاخر اس معاشرے کو ختم کرکے رکھ دیگا، کیونکہ اس سے محرومیوں میں اضافہ ہو رہا ھے اور سوسائٹی میں استحقاق (merit) مصنوعی امتیازات کا شکار ہوگیا ہے۔ جو بچے نجی تعلیمی ادارے سے پڑھ کر نکل رہے ہیں وہ معاشرے میں زیادہ عزت و احترام کما رہے ہیں بمقابلہ ان کے جو سرکاری اداروں میں پڑھ رہے ہیں۔ لہذا اپنی زندگی کے آغاز میں سرکاری سکول میں جانے والا بچہ عزت و تکریم سے محروم ہوجاتا ہے۔ ایسا نظام کسی بھی معاشرے کیلئے سم قاتل ہے اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ ایک صحت مند معاشرے کو فروغ دیں تو ہمیں اس کو بدلنا ہو گا۔ اس تناظر میں چیف جسٹس کی گفتگو کی اہمیت بخوبی سمجھی جاسکتی ہے۔ آئین کا آرٹیکل 25A کہتا ہے کہ: ’یہ ریاست کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ پانچ سے سولہ سال کی عمر کے سارے بچوں کی مفت اور لازمی تعلیم کا اہتمام کرے، اس کے مطابق جس کا تعین قانون کریگا‘۔ یہ آرٹیکل اٹھارویں ترمیم کے بعد آئین کا حصہ بنا ہے، لہذا یہ ابھی تروتازہ ہے لیکن ابتک اس کا کوئی قابل ذکر اثر ہمارے تعلیمی نظام پر مرتب نہیں ہوا ہے۔ چنانچہ چیف جسٹس کا یہ کہنا ہے کہ اس کو اگر صحیح معنوں میں نافذ نہ کیا گیا تو یہ ایک نمائشی چیز بن کر رہ جائے گا۔
لیکن ہماری گذارش یہ ہے کہ ایک ایسی جمہوریت جو بنیادی حقوق کی ضمانت فراہم کرتی ہو وہاں عدالتوں کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ چیف جسٹس نے اپنی گفتگو میں جسٹس اہارون براک کی کتاب ’’جمہوریت میں جج‘‘ کا حوالہ بھی دیا ہے۔ معزز اہارون براک کی ایک شہرت یہ بھی ہے کہ وہ اس نظریہ کے حامل ہیں کہ قانون کی تعبیر (interpretation) اس کے مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے کی جانی چاہئے۔ علاوہ ازیں ان کا کہنا ہے کہ جج کو یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ قانون کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ان دونوں باتوں کو سامنے رکھا جائے تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ عدالت اس آرٹیکل کی موجودگی میں انتظامیہ کا اس بات پر مواخذہ نہ کرے کہ آج پاکستان میں تین کروڑ بچے جنہیں سکول میں ہونا چاہئے وہ سکول سے باہر ہیں۔ یہ تعداد عدالت کو ایک فاضل وکیل نے کارروائی کے دوران بتائی۔ درحقیقت اس آرٹیکل کی موجودگی میں کسی ایک بچے کا بھی تعلیم سے محروم ہونا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ اور پھر اگر ہم ان مقاصد کو مدنظر رکھیں جو اس آرٹیکل کا محرک ہیں تو اس ابتدائی تعلیم میں تفریق و امتیاز جو سرکاری اور نجی سکولوں کی موجودگی میں اور نصاب اور لباس کے فرق سے ہوتا ہے اس کی بھی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ چیف جسٹس نے جس یکساں نظام تعلیم کا ذکر کیا ہے وہ عین آئیں کا تقاضا ہے اور اس کو نافذ ہونا چاہئے۔
اب اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ریاست اس آئینی تقاضے کو پورا نہیں کر رہی تو اس پر عملدرآمد کس طرح کرایا جائے۔ آئین پاکستان سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی بھی ایسی صورت میں، خصوصاً جبکہ بنیادی حقوق کے حصول کا مسئلہ ہو، مداخلت کرکے معاملات کو آئین کے مظابق درست کر سکتے ہیں لیکن موجودہ مسئلے کی نوعیت اور اہمیت کو دیکھتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں کہ اس کے حل کی ایک معنوی شکل صرف اس وقت نکلے گی جب سپریم کورٹ اس معاملے میں براہ راست آئین کے آرٹیکل (3)184 کے تحت کاروائی کا آغاز کرے اور اس کے اطمینان بخش نفاذ تک اس کاروائی کو جاری رکھے۔
امریکہ کو نسلی امتیاز کے خاتمے کیلئے ایک طویل خانہ جنگی سے گزرنا پڑا تھا۔ اس کے باوجود معاشرے میں امتیازات باقی رہ گئے تھے۔ ان میں سے ایک بڑا امتیاز سفید و سیاہ فام آبادیوں کا علیحدہ بستیوں میں رہنا اور دونوں کیلئے الگ الگ سکولوں کی موجودگی تھی جہان مخالف نسل کا بچہ نہیں جا سکتا تھا۔ امریکہ کے ایک مشہور مقدمے میں امریکی سپریم کورٹ نے سرکاری تعلیمی اداروں کا نسلی بنیادوں پر قیام (Segregation) خلاف آئین قرار دے دیا۔ چونکہ آبادیوں کا قیام نسلی بنیادوں پر پہلے سے موجود تھا اس لیے فیصلے پر عملدرآمد اسی صورت میں ممکن تھا جب بچوں کو ان کی آبادی سے دور دوسری آبادی میں واقعہ سکول منتقل کیا جائے۔ سفید فام شہری غیظ و غضب کا شکار ہوگئے اور اس فیصلے پر عمل ناممکن بن گیا۔ ایک وفاقی عدالت نے 1969ء میں سکول بورڈ کو ہدایت کی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بسوں کے ذریعے مختلف النسل بچوں کو ان کے سکولوں تک پہنچائے تاکہ ملک میں نسلی انضمام کو فروغ دیا جاسکے۔ اس فیصلے پر ملک میں ایک کہرام برپا ہو گیا۔ حکومت کا کہنا تھا کہ وہ یہ ذمہ داری پورا نہیں کر سکتی خصوصاً جبکہ سفید فام آبادی میں اس کے خلاف شدید مزاحمت ہو رہی ہے۔ اس مسئلے کی شدت کا یہ عالم تھا کہ وفاقی عدالت کے جس فاضل جج نے یہ فیصلہ کیا تھا وہ نفرت کا نشان بن گئے اور انہیں قتل کرنے کی دھمکیاں بھی موصول ہونے لگیں۔ بالآخر یہ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا اور سپریم کورٹ نے وہ متفقہ فیصلہ کیا جس کے متعلق کہا جاتا ہے اس نے امریکہ کو ازسرنو ایک قوم بنا دیا۔ سپریم کورٹ نے نہ صرف وفاقی جج کے فیصلے کو برقرار رکھا بلکہ یہ ذمہ داری اٹھالی کہ وہ خود بسنگ کی نگرانی کریگی۔ ہرچند کہ اس موقع پر سپریم کورٹ کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت کر رہی ہے لیکن اس نے بلا پرواہ اس کام کو جاری رکھا اور اس صدی کے آغاز میں جب اس کو یہ اطمینان ہوگیا کہ مطلوبہ مقاصد حاصل ہوگئے ہیں اور سکولوں میں تفریق اور امتیازات ختم ہو گئے ہیں تو اس نے نگرانی کے عمل کو منقطع کر دیا۔
چیف جسٹس نے جس عزم کا اظہار کیا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ وہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر ہمیں ایک قوم بننا ہے تو ہم اپنے بچوں کو علیحدہ علیحدہ خانوں میں تقسیم نہیں کر سکتے۔ ہمارا ملک سلامتی کے حوالے سے ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ آئین میں 25A کی ترمیم یہ گنجائش پیدا کرتی ہے کہ ہم تعلیم کے میدان میں یکساں نظام نافذ کرکے خود کو ایک قوم بنانے کی بنیاد رکھ دیں۔ امریکی سپریم کورٹ کی مثال ہمارے لیے مشعل راہ ہونی چاہئے اور ہمارے سپریم کورٹ کو بھی اس تنقید کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے جو ناقدین یہ کہہ کر کرینگے کہ سپریم کورٹ انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت کر رہی ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حکمرانوں کو یکساں تعلیمی نظام رائج کرنے کی توفیق دے۔