ریلوے کی بربادی کے اسباب
مکرمی! میرا گائوں ریلوے لائن سے دور ہونے کی وجہ سے ریلوے سفر کا موقع کم ملتا ہے۔10سال قبل مجھے لاہور سے ماڑی انڈس ٹرین میں آنا پڑا۔ میرے خیال میں اس میں رش کم ہوتا تھا۔ لیکن جب شیخوپورہ تک مجھے ایک پائوں پر کھڑا ہونا پڑا تو میرا اندازہ باطل ہو گیا۔7-8سال قبل دن2بجے ملتان جانے والی بلال ایکسپریس میں سوار ہوا تو کسی ڈبہ میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی کندیاں تک میں کھڑا رہا۔ ہر4مسافر والی سیٹ پر5مسافر بیٹھے تھے۔ کندیاں اسٹیشن پر15\20 مسافر اترے تو25\30 سوار ہو گئے لیکن میں بیٹھنے کی جگہ پا چکا تھا۔ ہر سٹیشن پر گاڑی سے جتنے مسافر اترتے کم و بیش اتنے ہی سوار بھی ہو جاتے۔ بزنس کے لحاظ سے میں نے ان دونوں گاڑیوں کو کامیاب اور مقبول پا یا تھا۔اس طرح ماڑی انڈس تا ملتان۔ کندیاں تا راولپنڈی اور سرگودھا میانوالی کے درمیان چلنے والی گاڑیوں کے پائیدانوں سے لٹکتے مسافر بھی ان کی مقبولیت کا مظہر ہیں لیکن7-8سال سے میانوالی ریلوے سٹیشن پر پورا دن انسان کم اور آوارہ کتے نظر زیادہ آتے ہیں کیونکہ زرداری حکومت نے ان5گاڑیوں کو خسارہ کا بہانہ بنا کر بند کر دیا تھا۔ نئی حکومت نے بھی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ ملکی معشت پر برسراقتدار آنے والی دونوں پارٹیاں امریکی منڈیاں بنی ہوئی ہیں۔ 2018ء کے الیکشن میںG T Sاور ریلوے کی سہولت چھیننے والوں کو اب اقتدار میں نہیں آنا چاہیے۔ (فتح محمد موسیٰ خیل ضلع میانوالی۔0315-6098210)