• news
  • image

کیا قصور واقعات میں سیاستدان بھی ملوث ہیں

ڈاکٹر طاہرالقادری نے قصور جا کے نماز جنازہ پڑھائی۔ ہم ان کے شکر گزار ہیں مگر کچھ این جی او والیاں، طاہرہ عبداللہ اور کئی لوگ اعتراض کر رہے ہیں کہ سستی شہرت حاصل کرنے کا طریقہ ہے۔ وہ خود تو مظلوموں کے پاس نہ پہنچے جو پہنچے ہیں ان کے لیے گندی سیاست کی جا رہی ہے۔ کہتے ہیں قصور کے واقعے میں ن لیگی ممبران اسمبلی شامل ہیں۔ پہلے بھی انہی لوگوں نے کوئی کارروائی نہیں ہونے دی۔
میں تین دن سے سکتے میں ہوں۔ مجھے پرندے، پھول اور بچے اچھے لگتے ہیں۔ خدا کی قسم وہ اللہ کی بے پناہ نعمت کی طرح ہیں۔ میری اس دوزخ بنتی زمین پر جنت کے باشندے ہیں۔ ان کا بھولپن، ان کی معصومیت اس برباد ہوتی دنیا میں ایک واحد خوشخبری ہے۔ میں دو رشتوں کو زندگی کی علامت سمجھتا ہوں۔ ماں اور بچے۔
پولیس تو لوگوں کی محافظ ہوئی۔ وہ صرف حکمران کی غلام ہے۔ وہ عام لوگوں کے لیے ظالم ہیں۔ کتنا ظلم ہے کہ خود پر ظلم و ستم اور بے انصافی کے ازالے کے لیے لوگ پولیس والوں کے پاس آنے پر مجبور ہیں۔ ہماری پولیس اس المیے پر غور کرے۔ وہ ظالموں کے ساتھی ہیں۔ انہیں سب معلوم ہوتا ہے کہ کہاں کون لوگ کیا کر رہے ہیں۔
میرا دل کہتا ہے کہ قصور پولیس اس ظالم کو جانتی ہے جس نے زینب کے ساتھ ظلم کی انتہا کر دی۔ منتظم کے طور پر معروف شہباز شریف کی جن صلاحیتوں کا ذکر ہوتا ہے ہم اس کے قائل ہیں۔ ان کی انتظامی طاقت اور جلال کہاں گیا۔ اس طرح کے واقعات صرف پنجاب میں مسلسل کیوں ہو رہے ہیں۔ قصور ماڈل ٹائون سے کتنا دور ہے مگر پولیس کی طرف سے ماڈل ٹائون میں کھلی درندگی کے بعد قتل ہونے والوں کے بارے میں برادر رانا ثنااللہ کہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ پنجاب کو تو پتہ ہی نہیں ہے کہ کیا ہوا اور کیوں ہوا۔
وہ وزیر قانون ہیں تو اس لاقانونیت کا کون ذمہ دار ہے۔ آج کسی پولیس والے کو نہیں پوچھا گیا، کیا قانون نافذ کرنے والوں پر قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ کس آسانی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ قصور میں بچوں سے زیادتی کرنے والا درندہ ایک ہی ہے۔ سینکڑوں پولیس والے ایک طاقتور آدمی کو نہیں پکڑ سکتے۔ وہ صرف کمزوروں کے لیے بھرتی کیے جاتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ اس طرح زیادتیوں کے مجرم اکثر لڑکی یا لڑکے کے قریب کے لوگ ہوتے ہیں مگر پولیس دور کے لوگوں کے پیچھے پڑی رہتی ہے۔ 2017 میں زیادتی اور قتل کے واقعات کی تعداد ایک ہزار 466 ہے۔ آدھی سے زیادہ تعداد بچے بچیوں کی ہے۔ ان واقعات میں پڑوسی، محلے دار اور رشتہ دار ملوث ہوتے ہیں۔ اخبار میں شائع ہوا ہے کہ قصور میں ایک ممبر اسمبلی ان وارداتوں کا سرپرست ہے۔ اس لیے اب تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
سب تجزیہ نگار اور دردمند لوگ کہہ رہے ہیں کہ پہلے ہی کوئی کارروائی ہو جاتی اور درندوں کو سرعام پھانسی پر لٹکا دیا جاتا تو یہ واردات بھی نہ ہوتی جس نے سارے پاکستان کو غمزدہ اور ناامید کر دیا ہے۔ ان واقعات میں بڑے اثرورسوخ والے اور جان پہچان کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔
یہ بھی سوال ہے کہ بہادر اور منتظم وزیراعلیٰ شہباز شریف رات کے اندھیروں میں آدھی رات کے بعد بڑی احتیاط سے قصور کیوں گئے۔ وہ غمزدہ لوگوں کے ساتھ مل کر احتجاج کرتے تو لوگ خوش ہو جاتے کیونکہ کسی کارروائی کی امید اب ختم ہو گئی ہے۔
حیرت ہے کہ برادرم رانا ثنااللہ کس کا دفاع کر رہے ہیں؟ وہ اپوزیشن میں تھے تو ہم ان کے ساتھ تھے۔ ہم اب بھی ان کے ساتھ ہیں۔ وہ کچھ کر کے دکھائیں۔ وہ ناراض ہوتے ہیں۔ یہ باتیں ان کے حق میں ہیں۔ کبھی تو ہو کہ کوئی جتنا اپوزیشن میں مقبول ہوتا ہے، وہ پوزیشن یعنی اقتدار میں آئیں تو اتنے ہی مقبول ہوں مگر یہ کبھی نہیں ہوا تو یہ شرمناک خبریں دیکھیں۔ دیکھتے رہیں۔
1۔ پتو کی: چھٹی جماعت کے ایک طالب علم کو اغوا کر کے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ بچہ اور ملزم تین روز سے لاپتہ ہے۔
2۔ بھلوال: 16 سال کی لڑکی زیادتی کے بعد بے دردی سے قتل، تفتیش ’’جاری‘‘ ہے؟
3۔ نویں جماعت کا طالب علم زیادتی کے بعد قتل۔ کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔
4۔ حاصل پور: ایک اوباش ظہیر نامی شخص نے احمد شیر کی 13 سال کی لڑکی کو اغوا کیا۔ واپس کرنے کے وعدے کے باوجود مکر گیا۔ پولیس کارروائی کرنے سے انکاری ہے۔ آٹھ ماہ گزرنے کے بعد بھی کچھ نہیں ہوا۔ ملزم کے اعتراف کے بعد بھی یہ بے شرمی؟
5۔ فورٹ عباس: ایک غنڈے نے دوسری جماعت کے بچے کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔ 6 سال کے احمد کو نامعلوم شخص نے اٹھایا تھا۔
6: ٹوبہ ٹیک سنگھ: تین موٹر سائیکل سواروں نے ٹیوشن کے بعد گھر جاتا ہوا بچہ اٹھایا زیادتی کے دوران ویڈیو بھی بنائی۔
7 گجرات: تین بچوں کے ساتھ زیادتی۔ کانسٹیبل گرفتار۔
8۔ کامونکی: مدرسہ کی طالبہ سے زیادتی ۔
ریٹائرڈ آئی جی ذوالفقار چیمہ نے کہا کہ پولیس میں بھرتیاں میرٹ پر کی جائیں۔ فیصلہ سازی میں پولیس والوں کا رول ہو۔ پولیس والوں میں استقامت نہیں، دیانت نہیں۔ ان کی ٹریننگ بہت ناقص ہے۔ ٹریننگ سنٹر بے کار ہیں۔ ان کے کانوں میں کوئی اچھا لفظ نہیں پڑتا۔ پولیس صرف حکمرانوں کی غلام ہے۔ عام لوگوں کی خوشنودی پولیس کو درکار نہیں۔ لوگ پولیس کو بددعائیں دیتے ہیں اور گالیاں نکالتے ہیں۔
میں ملک ریاض سے کبھی نہیں ملا نہ ملنے کا امکان ہے۔ وہ فلاحی کاموں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ زینب سے پہلے زیادتی کا شکار ایک بچی کائنات ابھی تک ہسپتال میں ہے۔ ملک صاحب نے ڈاکٹروں کی ٹیم اس کے علاج کے لیے بھجوائی ہے۔
آرمی چیف اور چیف جسٹس پاکستان سے زینب کے والد کی اپیل بہت کچھ سوچنے کی دعوت دیتی ہے۔ اب کچھ امید ہے کہ انصاف ملے گا۔ ن لیگی ممبران اسمبلی اپنے ’’پسندیدہ‘‘ پولیس والوں کے تبادلے کرواتے ہیں۔ وہ انہیں اپنے معاملات اور مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں پھر وہ اپنے لیے بھی اپنے اختیارات کو بے دردی سے استعمال کرتے ہیں۔
اب والدین بچوں بچیوں کو سکول بھیجنے سے ڈرتے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان کی 16 سالہ لڑکی کو برہنہ کر کے بازاروں میں پھرایا گیا۔ ایف آئی آر درج کرائی مگر ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔
یہ واقعات اس ملک میں ہو رہے ہیں جو اسلام کے نام پر بنایا گیا۔ سیالکوٹ میں نوکری کا جھانسہ دے کے 11 سال کی لڑکی کو بے آبرو کر دیا گیا۔ میں کتنی اور خبریں لکھوں۔ میرا قلم غم اور غصے سے کانپ رہا ہے۔ میں نے لکھا ہے کہ 2017 میں ہزاروں واقعات ہوئے اور کچھ بھی نہیں ہوا۔
اقبال ٹائون لاہور میں دو بچوں کی ماں نے پھندہ لے کے خودکشی کی۔ مرحومہ عائشہ کا خاوند سے جھگڑا رہتا تھا۔ وہ تنگ کرتا تھا اور اس نے اپنی بدکرداریوں کے لیے کبھی نہ سوچا تھا۔ قندیل بلوچ کے واقعے نے کتنی سنسنی پھیلائی۔ بھائی نے قتل کیا۔ کیا یہ بھائی فرشتہ ہے؟ پولیس نے کئی ماہ کے بعد مفتی قوی کو گرفتار کر لیا۔ کچھ دنوں میں ہی اس کی ضمانت ہو گئی۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن