بلوچستان: تبدیلی آئینی سہی مگر فلورکراسنگ لمحۂ فکریہ
بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کے وزیراعلیٰ نواب ثنا اللہ زہری کے مستعفی ہونے کے بعد صوبائی اسمبلی میں 6‘ ارکان پر مشتمل (ق) لیگ کے رکن عبدالقدوس بزنجو وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے۔ 65 رکنی ایوان میں سے وزیراعلیٰ کے انتخاب کیلئے 54 ارکان نے ووٹ ڈالے۔ نئے وزیراعلیٰ کو 41 اور ان کے مدمقابل پشتونخوامیپ کے سید لیاقت علی آغا نے 13 ووٹ حاصل کئے‘ 11 ارکان غیرحاضر رہے۔
اکثریتی پارٹی مسلم لیگ (ن) کے نواب ثنا اللہ زہری کی وزارت اعلیٰ ٹھیک جارہی تھی کہ بعض نادیدہ قوتیں حرکت میں آگئیں اور ایوان میں وزیراعلیٰ کے خلاف بغاوت ہوگئی۔ وزراء کے استعفے آنے شروع ہوئے اور پھر ایک دن تحریک عدم اعتماد آگئی۔ بلوچستان کا سیاسی بحران سنگین ہوا تو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کوئٹہ کا دورہ کیا۔ وزیراعلیٰ کو ہٹانے پر تلے‘ اپنی پارٹی کے ارکان کے علاوہ اتحادیوں کے ارکان سے بھی ملاقاتیں کیں لیکن سبھی نے پیچھے ہٹنے یا اپنے فیصلے پر نظرثانی سے انکار کردیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ارکان پر فسوں پھونک دیا گیا تھا۔ انتخابات میں چند ماہ رہ گئے ہیں۔ اس موقع پر بلوچستان کیا کسی صوبے میں بھی ایسی اتھل پتھل نہیں ہونا چاہئے تھی۔ حیرانی تو اس بات کی ہے کہ (ن) لیگ کے اتحادی بھی اس عمل میں پیش پیش تھے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بعض قوتیں مسلم لیگ (ن) کو صوبے سے آئوٹ کرنا چاہتی تھیں۔ ناپسندیدہ بات یہ ہے کہ اس منصوبے کو کامیاب بنانے میں ن لیگ کے ارکان نے زیادہ حصہ ڈالا۔ جو کچھ ہوا نہ چاہتے ہوئے بھی کہنا پڑتا ہے کہ درست، تبدیلی آئینی طریق کار کے مطابق آئی مگر جو بڑے پیمانے پر فلور کراسنگ ہوئی اسے کیا کہا جائے گا۔ جن پارٹیوں کے ارکان نے فلور کراسنگ کی ہے لازم ہے کہ وہ یہ تحقیقات کریں کہ وہ کون سے عوامل تھے جنہوں نے ارکان کو پارٹی قیادت کی ہدایات کو نظرانداز کرنے پر اکسایا یا مجبور کیا۔ اس معاملے پر خاموشی جمہوریت کیلئے نقصان دہ ہوگی اور صوبے میں عدم استحکام جاری رہے گا۔ اس سوال کا جواب بھی سیاست دانوں کے ذمہ ہے کہ گزشتہ ستر سال میں ہم نے یہی سیکھا ہے جس کا مظاہرہ بلوچستان میں ’’تبدیلی‘‘ کی صورت میں سامنے آیا ہے‘ حالانکہ ہمارے پاس ایک نہایت معیاری آئین ہے جسے نافذ ہوئے 35 سال ہونے والے ہیں لیکن اس قسم کی سیاست دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ ہم ابھی تک اچھی جمہوری روایات نہیں قائم کر پا رہے۔