• news
  • image

چیف جسٹس کی قانون و انصاف کیلئے دردمندی

چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے گزشتہ روز کراچی میں جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ سپریم ہے۔ قانون بنانا اس کا کام ہے ہمیں قانون بنا دیں پھر ججز کوتاہی کریں تو ذمہ داری میری ہے‘ ججز کی دیانتداری پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے۔ وہ من مرضی کا نہیں قانون کے مطابق انصاف مہیا کرتے ہیں۔ انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ بدقسمتی سے آج کل جو فیصلے آرہے ہیں وہ قانون کے بجائے من مرضی کے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قوانین میں ترمیم کیلئے پارلیمنٹیرین سے بھی بات کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اگر ہم کسی پارلیمنٹیرین سے مل لیں تو اس پر چہ مگوئیاں نہیں ہونی چاہئیں‘ بداعتمادی کی فضاء ختم ہونی چاہئے۔ انہوں نے خطاب میں اس نکتے کو پھر دہرایا کہ جج قانون کے مطابق فیصلہ کریں۔ انہیں کوئی اختیار نہیں کہ اپنی منشاء کے مطابق فیصلے کریں۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار نے تقریر میں قانون‘ انصاف اور مقننہ کی ذمہ داری کے حوالے سے بڑے اہم نکات اٹھائے جو صرف عدلیہ کے ارکان ہی نہیں بلکہ پارلیمنٹیرین اور حکومت کیلئے بھی گہرے غور و خوض کے مستحق ہیں کیونکہ انصاف کے شعبے میں تاخیر دیرینہ شکایت ہے اسی طرح ججز کو بعض اوقات مقدمات کے فیصلے کرنے میں اس لئے دقت پیش آتی ہے کہ قانون واضح نہیں ہوتا اور ظاہر ہے کہ قانون بنانا عدالت کا نہیں مقننہ کا کام ہے۔ اس ضمن میں مقننہ اگر عدلیہ سے رجوع کرے تو جو قانون بنے گا وہ یقین ہے کمزوریوں اور ابہام سے پاک ہوگا‘ جن کا سہارا لے کر وہ مجرم بھی گرفت سے بچ نکلتے ہیں جن کے جرم کی گواہی سورج بھی دے رہا ہوتا ہے۔ اگر اس نیک مقصد اور معاملات کی اصلاح کیلئے عدلیہ کے سینئر ارکان پارلیمنٹ کے ممبران سے ملتے ہیں تو اس پر ناک بھوں چڑھانے‘ چہ مگوئیاں کرنے اور بداعتمادی کا اظہار کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے بلکہ آگے بڑھ کر میل ملاقاتوں کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرنا چاہئیں۔ اسی طرح فوجی قیادت کے پارلیمنٹیرین اور حکومتی ارکان سے تواتر کے ساتھ رابطے ضروری ہیں۔ فوج‘ پارلیمنٹ اور عدلیہ‘ ریاست کے بنیادی ادارے ہیں۔ بے شک پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے اور اسکی بالادستی کا چیف جسٹس نے بھی اعتراف کیا ہے لیکن عدلیہ اور فوج کا بھی سیاسی استحکام اور ملکی سالمیت و خودمختاری کو یقینی بنانے میں اہم کردار ہے۔ ہر جمہوری معاشرے کے اپنے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ بعض جمہوری معاشروں میں ایسے رابطوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا بلکہ ایسے رابطوں کو جمہوری حکومت کے اقتدار کو چیلنج کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے لیکن پاکستانی معاشرے کے اپنے تقاضے ہیں‘ یہاں خرابیوں کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ فوج‘ پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان وہ رابطے نہیں جو ملک میں آئین کے تحت حکومت کیلئے استحکام کا باعث بن سکیں۔ جب کسی حکومت کو کمزور کہا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ فوج اور عدلیہ کی تائید و حمایت سے محروم ہے۔ بہرکیف چیف جسٹس کا پارلیمنٹیرین سے ملنا‘ عدل و قانون کی بہتری کیلئے ہے نہ کہ کسی سیاسی مقصد کیلئے‘ اس لئے ایسے رابطوں میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ پارلیمنٹ فوج اور عدلیہ کے مابین ڈائیلاگ کی طرف پیشرفت ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن