آنے والا کل !
سیاناپن یہ نہیں کہ آپ دھوکہ دہی سے کام لیں، اسے مکاری کہتے ہیں۔ دانش و عقل مکاری ہو ہی نہیں سکتے تاہم سیاناپن یہی ہے کہ علم و حکمت کو بگاڑ کے بجائے بناؤ کیلئے بروئے کار لائیں۔ 70 برس بیت گئے ہمیں پاکستانی بنے، سقوط ڈھاکہ کا درد ہم نے سہا، آمریتوں کے سفاک تجربات سے ہم گزرے، جنگ وجدل کے زخم ہم نے سہے، بین الاقوامی نفسیاتی و نظریاتی و علامتی محاذ جغرافیائی چوک پاکستان پر جاری ہیں، افغانیوں کی جنگوں کے اثرات ہمارے جسم و جان برداشت کررہے ہیں، مہاجرین کو دامن میں جگہ ہم نے دی، بھٹو کے عدالتی قتل اور قائد ملت لیاقت علی خان سے دختر مشرق بے نظیر بھٹو تک کے اندھے قتلوں کیلئے مقتل بھی یہی سرزمین بنی، اسی پاک سرزمین کے سینے میں درد کشمیری عوام کا بھی ہے۔ گویا پاکستان کی شہ رگ پر رکھی چھری‘ جو اقوام متحدہ کو کبھی نظر نہ آئی تو اس عالمی ناانصافی کا دکھ بھی پاکستان نے جھیلا، ڈرون حملوں کا آتش و آہن بھی ہمارا دامن چھلنی کرتا رہا۔آج کی قیادت کا نام میاں نواز شریف (25دسمبر 1949) ، عمران خان (5 اکتوبر 1952) اور آصف علی زرداری ( 26 جولائی 1955) ہے۔
میاں نوازشریف کی پولیٹیکل ہسٹری یہ ہے کہ ان کی تین دفعہ ذاتی وجوہات اور فوج و عدلیہ سے نہ بننے اور کوئی درمیانی راستہ نہ نکال پانے کی پاداش میں وزارت عظمیٰ ختم ہوئی اور دو دفعہ بینظیر بھٹو کی حکومت بطور اپوزیشن لیڈر گرانے میں کامیاب ہوئے۔ کل ملا کر الاماشاء اللہ 5 وزارت عظمیٰ میاں صاحب کے "زور بازو" کی نذر ہوئیں۔
حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ آنے والا سیاسی کل بلاول بھٹو زرداری (21ستمبر1988)، عمران خان (5 اکتوبر 1952)، مریم نواز (28 اکتوبر 1973) یا حمزہ شہباز شریف (6 ستمبر 1974) کے ہاتھوں میں آنیوالا ہے۔ (محدود مدت کیلئے کسی حد تک شہباز شریف (23ستمبر 1951) میاں نواز شریف کے متبادل بھی ہونگے) جانے آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف اس بات کو کیوں نہیں سمجھ رہے کہ عمران خان کی جانب لوگ ان دونوں کی کرپشن کے سبب لپکے ہیں، بلاول و مریم وحمزہ کو یہ سوچ کر آگے قدم بڑھانا ہوگا، اور اس سے بھی بڑی عوامی بدقسمتی یہ ہے کہ، عمران خان بھی یہ ماننے اور سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ نوجوان نہیں، 65 برس کے ہیں اور کرپشن کے سنگ سنگ لوٹاازم کے راجاؤں اور مہاراجاؤں کو اپنے مقتدیوں اور مؤذنوں کی روحانی صف میں شامل کر چکے ہیں۔کیا عمران خان بتا سکتے ہیں کہ انکی "جوانی" کے ڈھلتے سورج کے بعد کس نوجوان قیادت کا سورج طلوع ہوگا؟ انہوں نے "نو-جوان" پرویز خٹک نما لوگوں کو باگ ڈور دی ہے اور اسکے برعکس پی پی پی نے مراد علی شاہ پر اعتماد کرکے یوتھ کو پذیرائی بخشی بلکہ بلوچستان کے بلوچوں اور پختونوں نے بھی کل پرسوں عبدالقدوس بزنجو جیسے نوجوان کے سر پر وزارت اعلیٰ کا تاج سجا کر کمال کردیا، ن لیگ کا ڈاکٹر مالک اور ثناء اللہ زہری کی بلوچستان میں وزارت اعلیٰ کا تجربہ ناکام رہا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم عمران خان کی سنجیدگی کے قائل ہیں مگر باوجود اسکے شادی بیاہ رچانے کی جو عمر بلاول بھٹو زرداری کی ہے وہ عمران خان چرائے پھرتے ہیں۔ مانا کہ ایسے نوجوانی کا عنصر نمایاں رہتا ہے لیکن ایسی "نو۔جوانی" کا کیا اچار ڈالیں جس پر ظالم سماج کی انگلیاں اٹھتی ہوں! بلاول ، حمزہ اور مریم کیلئے بہرحال آصف علی زرداری، میاں نواز شریف اور عمران خان وہ درسگاہیں ہیں جنکے اچھے اور برے تجربات سے وہ سیکھیں اور آنیوالے کل میں انکے برے تجربات نہ دہرائیں، تو عنایت ہوگی۔ تعلیم و تحقیق کی لہولہانی، دانشگاہوں میں تعلیم شکن سفارشی وائس چانسلرز کی تقرریاں اور تعلیم پروری کے برعکس اقربا پروری پر مبنی سرچ کمیٹیوں، مرکز میں نااہل وزارت صحت اور ہسپتالوں میں مسیحائی کے بجائے قصائی ایم ایس اور چیف ایگزیکٹوز کی تقرریاں، فارمیسی کونسلوں اور ڈرگ اتھارٹیز میں دوا کے بجائے "زہرساز" لوگوں کی ملک و عوام دشمن سرگرمیوں کو گڈبائے کہنا وہ فرض ہوگا جو ان کے بڑوں کی قضا ہے! اگر بلاول، مریم یا حمزہ اسے گڈ گورننس سمجھتے ہیں، جس میں: بار بار عدالتوں ہی کو ازخود نوٹس لینا پڑتا ہے، جہاں بلھے شاہ کے قصور میں آئے دن کوئی زینب درندوں کا نشانہ بنتی ہے، جہاں حکمران پراپرٹی ڈیلرز کا روپ دھار کر خواص کو محل اور شبستاں فراہم کرتے جبکہ غریب جھونپڑی میں پلنے اور ہسپتال کے فرش پر پیدا ہونے پر مجبور ہوتا ہے۔ جہاں تھانے دار راہزن اور قاتل، بیوروکریٹ سول سرونٹ کے بجائے حاکموں کا پالتو اور عوام کیلئے "ذیلدار" بن جائے تو ایسی بلاول صبح نو، حمزہ و مریم آغاز اور عمرانی نیا پاکستان کا فائدہ ہوگا بھی، تو کیا؟ ہاں وہ ایک دن اچھا لگا تھا جس روز آصفہ بھٹو زرداری اور بختاور بھٹو زرداری نے پیپلزپارٹی میں عرفان اللہ مروت کی شمولیت کو اس لئے ناکام بنادیا تھا کہ ماضی میں عرفان اللہ مروت (داماد سابق صدر غلام اسحاق خان ) پر عورت کی بے حرمتی کا دھبا تھا، ننھی سی کاوش سہی لیکن سابق صدر آصف علی زرداری کو بیک فٹ پر جانا پڑا باوجود اسکے کہ انہوں نے آئیں بائیں شائیں کی کوشش بھی کی۔ اندھیری شب میں جگنو کا ٹمٹمانا بھی بصیرت اور بصارت لگتا ہے۔ مریم نواز شریف اور حمزہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر اب ہی سہی کوئی منصفانہ مؤقف کیوں نہیں لیتے، آنیوالا کل ہیں تو محشر بپا کر کیوں نہیں دیتے؟ عملاً کچھ کر کیوں نہیں دیتے کہ، ایسے دستور کو، صبح بے نور کو ہم نہیں مانتے؟؟ پھر نیا پاکستان والوں میں ایسا کوئی نہیں تھا جو فردوس عاشق اعوان اور بابر اعوان سے پوچھتا کہ آپ کل سچ کے علمبردار تھے یا آج یا کبھی نہیں؟؟ ہو سکتا ہے عمران خان کے بیٹے سلیمان خان اور قاسم خان پاک سرزمین پر جلوہ افروز ہوتے تو یہ سوال اٹھاتے! یہ صداقت عامہ ہے کہ آنے والا کل ہمیشہ نوجوانوں کے کندھے پر ہوتا ہے، بیڑا انہوں نے اٹھانا ہوتا ہے، یہ بلاول، حمزہ و مریم اور عمران دستور میں 7 تا 28 تک کی انسانی حقوق دفعات اور 62 و 63 دفعات کے تقدس کا بیڑا اٹھائیں گے یا اس عوام کو رعایا سمجھتے ہوئے سابق روایات کی زندہ لاشوں کی پالکیوں کو کندھوں پر اٹھائے پھریں گے؟ قائداعظم کا ویژن اور علامہ اقبال کا فکر عوام کے سسٹم میں کب پایا جائے گا یا یہ یونہی اشرافیہ کے لبوں پر رعایا کو اموشنل بلیک میل کرنے ہی کے کام آئیگا؟آنیوالے سیاسی کل کا آج دیکھا جائے تو کم ازکم بلاول بھٹو زرداری سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، سیانوں کیمطابق مسقبل میں بلاول کا مقابلہ نہ صرف نواز شریف و شہباز شریف اور عمران خان سکول آف تھاٹ سے ہے بلکہ خود نانا اور بی بی کے فلسفہ اور جدوجہد اور باپ کے قد کاٹھ سے بھی ہے تاہم کوئی اس کا نام بگاڑ کر لے یا کوئی اس کے طرز تکلم اور جوش خطابت کو نشانہ بنائے وہ رفتہ رفتہ آگے بڑھ رہا ہے، یقیناً اسکے پاس وقت بھی ہے، بلاشبہ نانا ، ماموں اور والدہ کی تاریخ اور درد بھی اسکے ساتھ ہیں۔ خدیکھنا یہ ہے کہ ان کا مستقبل کب آتا ہے اور تب تک وہ اپنے آپ کو تراشتے خراشتے کیسے ہیں، انہیں پارٹی کی کرپشن کے داغ ہی نہیں دھونے اپنی تعلیم و تربیت سے اکیسویں صدی کی جمہوریت اور چیلنجوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ ن لیگ سردست قلیل مدت کیلئے شہباز شریف کو سامنے تو لارہی ہے لیکن طویل مدت کا نقشہ ابھی واضح نہیں، ن لیگ کی اندرونی کہانیوں کے مطابق مریم نواز، ٹویٹ اور بنت نواز کی حد تک درست صوبائی سیاست اور وفاقی اسمبلی کی پریکٹیکل سیاست میں حمزہ شہباز آگے ہے۔بہرحال کوئی اسے میراث کہے یا وراثت کی سیاست مستقبل قریب کی سیاست میں ابھی خانوادے ہی غالب ہیں۔
دوسری جانب مونس الٰہی پر تول رہے ہونگے، عوام کو بھی چسکا خانوادوں ہی کا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام نورانی گروپ انس نورانی کے پاس ہے، جمعیت علمائے اسلام کے گروپ مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق پاس ہی رہنا ہیں۔ جماعت اسلامی کا بہرحال داخلی جمہوری نظام جینوئن ہے ، اور ایم کیو ایم کا سسٹم "طلسمی" ہے۔ جو بھی ہو ضرورت اس امر کی ہے کہ آنیوالے کل کے سیاستدان آئینی اور گلوبل ویلج سے موازنہ کرنے والے کسی ایتھوپیا سے نہیں پہلے ہی 70 سال بعد کاغذی طور پر فاٹا کو "علاقہ غیر" کی اصطلاح سے بچانے کے درپے آئے ہیں۔ تھیوری اور نعروں سے نکل کر عمل میں آئیں- آنیوالا کل عوام کیلئے اسی صورت میں بہتر ہوگا گر اس میں سیانا پن سیاسی مکاری نہ بنا!