نواز شریف اور شیخ مجیب کا ذکر!
ہمیشہ مشکلات، تندی باد مخالف اور آزمائشیں ہی انسان کا امتحان ہوتی ہیں، اگر ان آزمائشوں سے کوئی سرخرو ہو گیا تو وہ ’’قائداعظم ‘‘ بن جاتا ہے اور تاریخ میں عظیم مقام پا لیتا ہے، لیکن جو لیڈرز شدید ردعمل کا شکار ہو کر حوصلوں کے مجروح ہونے کا راز فاش کرتے ہیں وہ جلد تھک ہار کر ڈگمگانے لگتے ہیں اور راہوں میں بھٹک کر اپنی منزل کھو دیتے ہیں۔ نواز شریف ایک بڑے لیڈر ہیں۔ اس وقت تاریخ کے سخت ترین امتحان سے گزر رہے ہیں اس لئے اُن کے بیانات، گفتگو اور سیاسی مکالمے کارکنوں اور عوام کیلئے بلند حوصلگی، بہادری اور عزم کے نمونے ہونے کے بجائے پریشانی، غم، دکھ اور گھبراہٹ کے عکاس ہو چکے ہیں۔ وہ ملکی اداروں کے خلاف باتیں کر کے نہ جانے کس خفیہ ایجنڈے کو تقویت دے رہے ہیں۔ ابھی گزشتہ دنوں انہوں نے شیخ مجیب الرحمان کے حوالے سے بیان دے کر مشرقی پاکستان کے زخم کوتازہ کر دیا، 9 جنوری 2018ء کو بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کے وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کو تحریک عدم اعتماد کا سامنا تھا۔ اس دن سابق وزیراعظم نواز شریف اسلام آباد میں میڈیا کو کہہ رہے تھے کہ ’’شیخ مجیب الرحمان محب وطن تھے لیکن انہیں باغی بنا دیا گیا، مجھے اتنے زخم نہ دو کہ میں اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکوں‘‘۔ اب سوال یہ ہے کہ شیخ مجیب الرحمان محب وطن تھا یا نہیں؟ ہر طرف یہی بحث جاری ہے، ہر دوسرا شخص انہیں محب وطن کہہ رہا ہے اور ہر تیسرا شخص انہیں غدار کہہ رہا ہے۔ لیکن راقم تاریخ سے صرف دو حوالے دینا چاہتا ہے کہ جس سے اندازہ ہو جائے گا کہ وہ محب وطن تھا یا غدار وطن… پہلا یہ کہ 16 جنوری 1972ء کو معروف برطانوی صحافی ڈیوڈ فراسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے شیخ مجیب الرحمان نے تسلیم کیا تھا کہ ’’میں 1948ء سے بنگلہ دیش کے قیام کے لئے کام کرتا رہا ہوں۔‘‘ جبکہ دوسرا یہ کہ چند برس قبل مجیب الرحمان کی صاحبزادی اور موجودہ وزیراعظم حسینہ واجد نے اپنے یوم آزادی پر انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ ’’جب وہ لندن میں اپنے باپ کے ساتھ ایک فلیٹ میں مقیم تھی تو وہاں ہندوستانی ’’را‘‘ کے افسران آتے تھے اور آزادی کے منصوبے بنتے تھے۔‘‘
بعدازاں ان ’’را‘‘ افسران نے ’’کریڈٹ‘‘ حاصل کرنے کے لئے اپنی یاداشتیں بھی چھپوائیں جن میں برملا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اس بات سے پردہ اُٹھایا کہ انہوں نے پاکستان توڑنے کے لیے شیخ مجیب کو کس کس طرح استعمال کیا اور کس کس وقت کتنے کتنے پیسے دیئے گئے۔ اس حوالے سے مشہور ’’اگرتلہ‘‘ کیس جو بنگلہ دیشی سیاست کی نذر کر دیا گیا ہے اگر وہ منظر عام پر آجائے تو شیخ مجیب الرحمان کی اصل حقیقت عیاں ہوتے دیر نہ لگے گی۔
میرے خیال میں اس سے زیادہ زیادتی اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ مسلم لیگ کا صدر ہو اور وہ مجیب الرحمن کو محب وطن قرار دے‘ جس کی بیٹی نے جماعت اسلامی کے بیشتر رہنمائوں کو صرف اس غرض سے پھانسی دے دی کہ وہ پاکستان کو ٹوٹتے نہیں دیکھنا چاہتے تھے، جبکہ کئی رہنما ابھی بھی جیل کی کوٹھڑیوں میں جانوروں جیسی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ اب ہندوستان سے مل کر قائداعظم کے پاکستان کو توڑنے والے مجیب الرحمن کا اس انداز میں ذکر پاکستانی سیاستدانوں کے لیے کسی طور پر بھی مناسب نہیں ہے۔ اگر مجیب کی بغاوت کی ذمہ داری عدلیہ اور فوج پر ڈال کر ان اداروں کو مطعون کرنا مقصد تھا تو یہ بھی سابق وزیراعظم کے لئے مناسب نہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ نواز شریف کا آئیڈیل شخص شیخ مجیب الرحمان ہے تو اس میں کوئی دو رائے ہو سکتی ہیں کہ ہمارے سابق وزیراعظم بھی انہی کی ڈگر پر چل کر ’’گریٹر پنجاب‘‘ کو تقویت دینا چاہتے ہیں، نواز شریف صاحب اس بات سے کیسے انکار کر سکتے ہیں کہ حقیقت میں ان کی ذہن سازی کر دی گئی ہے ورنہ وہ کبھی اس طرح کے الفاظ کا استعمال نہ کرتے۔ کیا وہ یہ باتیں محض اس لیے کر رہے ہیں کہ انہوں نے اس ملک کو جنت بنا دیا اور یہاں کے عوام کو بنیادی سہولتوں کے دریا بہا دینے کے بعد انہیں ان کے منصب سے ہٹایا گیا… کیا وہ پورے پنجاب یا پورے پاکستان کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں؟ کیا یہاں تخت لاہور کے طعنے نہیں دیئے سنے جاتے؟ کیا یہ بات نہیں کی جاتی کہ خود پنجاب کے بیشتر وسائل لاہور میں جھونک دیئے جاتے ہیں؟ کیا پنجاب کے خادم اعلیٰ خود بیسیوں باریہ ’’وارننگ ‘‘ نہیں دے چکے کہ اگر عوام کا استحصال بند نہ ہوا اور اگر حکمران اشرافیہ نے اپنے لچھن تبدیل نہ کئے تو خونی انقلاب سب کچھ بہا لے جائے گا اور کیا وہ بار بار ’’ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا‘‘ کی آواز نہیں لگا چکے؟
آپ کو شیخ مجیب الرحمان یاد آ گیا، کیا آپ کو خلفاء راشدین کے ادوار یاد نہیں آئے؟ کیاآپ کو حضرت عمرفاروقؓ کا دور حکومت یاد نہیں آیا جس میں انہوں نے انصاف کے لیے ہر حد پار کر دی تھی۔
آج شیخ مجیب الرحمان کی بات ہو رہی ہے۔ محض یہ بتا دیں کہ اس نے اس ملک کے عوام کی بہتری کے لیے کیا کیا ہے؟ سوائے سازشوں کے اس ملک کو دیا کیا ہے؟