قبلہ اول کی بازیابی اور امت مسلمہ
بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔ آمد اسلام کے بعد مسلمانوں کو اس جانب رخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا تھا۔ 17 ماہ تک مسلمانوں کا قبلہ اول رہا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پر رسالت مآبؐ نے ایک لاکھ 24 ہزار انبیاء کی امامت فرمائی اور پھر معراج کیلئے تشریف لے گئے۔ تمام انبیاء نے سجدہ کیا اور اپنے سر کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکایا۔ اور آپؐ نے امامت کرکے یہ پیغام دیا کہ آپ کی آمد پر نبوت ختم ہے اور آپ خاتم النبین اور امام الانبیا ہیں۔ تمام انبیاء کی امتوں کو بھی پیغام دیا گیا کہ اب اس دنیا کا دین اسلام ہو گا۔ انبیاء کے ایک ساتھ سجدہ کرنے کا اعزاز صرف مسجد اقصیٰ کو حاصل ہے۔ مسجد اقصیٰ میں ادا کی گئی نماز عام نماز سے کئی گنا زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ مسجد اقصیٰ جس شہر میں ہے اس کا نام بیت المقدس ہے۔ اسے یروشلم بھی کہا جاتا ہے بیت المقدس سے مسلمانوں کے جغرافیائی اور تاریخی تعلق کے علاوہ روحانی اور ایمانی سلسلہ بھی ہے جوکہ تمام تعلقات اور رشتوں سے مضبوط ہے۔ مقبوضہ بیت المقدس کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کے فیصلے کے بعد عالم اسلام میں ہیجانی کیفیت طاری ہے۔ دنیا بھر میں اس فیصلے کی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔ امریکہ کو سفارتی محاذ اقوام متحدہ میں بھی شرمندگی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 128 ممالک نے امریکہ کے اس اعلان کی شدید مذمت کی ہے۔ امریکہ کی طرف سے فلسطین کیخلاف اور اپنے حق میں ووٹ نہ آنے کی صورت میں اقوام متحدہ کی امداد آئندہ بجٹ میں کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ نے ہمیشہ امریکہ کی مرضی کیمطابق فیصلے کئے اس بار اقوام متحدہ امریکہ کے حق میں فیصلہ کرنے سے انکاری ہے۔ امریکہ نے پوری دنیا کے ممالک کی قرارداد کے حق میں ووٹ نہ ملنے کی دھمکیاں دی ہیں مگر 128 ممالک امریکہ کے تمام تعلقات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ڈٹ گئے‘ حق اور انسانیت کا ساتھ دیا۔ ویٹو پاور رکھنے والے 4 ممالک نے بھی امریکی فیصلے کو مسترد کردیا۔ امریکہ جو کہ دنیا میں مہذب ہونے‘ اصول اور ضابطے کا دعویدار ہے۔
اپنی ہی بنائی ہوئی اقوام متحدہ کے فیصلے کو ماننے کے بجائے دھمکیاں دے رہا ہے۔ امریکہ کا یہ رویہ غیراخلاقی اور غیر انسانی ہے۔ اسلام دشمن قوتیں مسلم ممالک میں سوچی اور منظم سازش کے تحت حکومتوں کو بے بس کرکے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیتی ہیں اور اپنی مرضی کے فیصلے کرواتی ہیں۔ دوسری جانب امت مسلمہ کو معاشرتی، اخلاقی، علاقائی اور لسانی بنیادوں کیساتھ رنگ و نسل کی بنیاد پر تقسیم کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اسرائیل کیساتھ مسلسل جنگوں کے بعد عربوں نے زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے اوسلو معاہدہ بھی کیا۔ یہ معاہدہ امریکی صدر نے کروایا تھا کہ انہیں جلد آزاد وطن مل جائیگا۔ لیکن آزاد وطن کے بجائے انتشار اور موت ہی ملی اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہے۔
اوسلو معاہدے کو 25 سال بعد دفن کردیا گیا۔ اسرائیل کا اگلا منصوبہ مسجد اقصیٰ کو شہید کرکے وہاں اپنا ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا ہے۔ امریکہ اور یورپ کی مدد سے عرب مسلمان ملکوں پر شب خون مارنا ہے۔ امریکہ سپر طاقت کے زعم میں مبتلا ہے جبکہ اس وقت دنیا کی بڑی طاقت بھی ہے۔ اسکی اتحادی فوجوں نے تمام براعظموں میں بالخصوص مسلمانوں کے اردگرد جال بن رکھے ہیں کیونکہ ان کو خطرہ صرف مسلمانوں سے ہے۔ مسلمانوں کی ماضی کی فتوحات واضح ہیں۔ برطانیہ اور امریکہ سے پہلے مسلمان ملک ترکی دنیا کی سپر طاقت تھی۔ یہودی اور عیسائی مسلمانوں سے اپنی شکست بھول نہ سکے ہیں۔ سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کا یہ بیان خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ دنیا تیسری عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے جسکے نتیجے میں مسلمان راکھ میں تبدیل ہوجائینگے۔ اس جنگ میں اسرائیل زیادہ سے زیادہ عرب مسلمانوں کو قتل کرکے سات عرب ممالک پر قبضہ کر لے گا۔ اسکی اہمیت علاقائی صورتحال اور تیل کی وجہ سے ہے‘ گریٹر اسرائیل کا منصوبہ نظر آ رہا ہے۔ اس صورتحال میں مسلمانوں کو اپنے طرزعمل ، رویہ اور عملی اقدامات پر غور کرنا ہو گا۔ کیا ہم پھر کوئی صلاح الدین ایوبی پیدا کرسکتے ہیں۔ ترکی کی طرف سے حالیہ بیانات کو سراہا جا رہا ہے لیکن بات عملی اقدامات کی طرف بڑھتی نظر نہیں آتی۔ اسلامی ممالک میں یکجہتی بھی نہیں نظر آتی۔ ایران فلسطین کے سلسلے میں سب سے سرگرم اور بڑا اسٹیک ہولڈر رہا ہے لیکن عملی اقدامات کا وقت آیا تو صرف بیانات آرہے ہیں۔
اسرائیل کو بھی ایران سے خوف نہیں حالانکہ ملک شام کے اندر ایران کی فوجیں اور بھاری جنگی سامان بھی موجود ہے۔ اسرائیل کیخلاف اگر مزاحم ہیں تو صرف فلسطین کے مجبور اور مظلوم عوام۔ جن کی وجہ سے اسرائیل 70 سال بعد بھی مسجد اقصیٰ گرا کر ہیکل سلیمانی کو تعمیر کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکا۔ ان فلسطینیوں کے پاس صرف اللہ کے دین کیلئے مر مٹنے کا جذبہ اور شوق شہادت سمجھ آتی ہے۔ نہتے فلسطینی ساری دنیا کی پشت پناہی والے اسرائیل کو اپنی من مانی نہیں کرنے دیتے۔ اگر نہتے کشمیری، بھارت جیسی ظالم ریاست اور حکمرانوں کو ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں۔ سارا عالم اسلام مل کر دنیا میں اپنا کھویا مقام کیوں بحال نہیں کر سکتا۔ افسوس مسلم دنیا ایک ایک کرکے تباہی کی طرف گامزن اور بے بس ہے اور جو بچے ہیں وہ اس چکر میں ہیں کہ شکر ہے ابھی انکی باری نہیں آئی۔ یہ مسلمانوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ اسرائیل نے 70 سال ہر طرح کے ظلم ڈھائے۔ فلسطینیوں کو ختم کرنے کی کوشش کی مگر وہ اب بھی اپنے مقصد میں کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔