اخوت:یہی ہے محبت یہی دین و ایماں
دنیا کی تاریخ میں ایسے انسان بہت کم ملتے ہیں جو اپنی ز ندگی خلق خدا کیلئے وقف کر دیتے ہیں اور انکی زندگی خوشیوں سے بھر دیتے ہیں ۔دوسروں کی خوشی وسکون کیلئے اپناتن من دھن اور مال سرمایہ بھی اس کاز کیلئے وقف کردیتے ،پھر نہ دن کے آرام کی کوئی پروا نہ رات کی نیند کی کوئی فکر بس انسانیت کی خدمت کا جذبہ اور انسانوں کی پریشانیاں دور کرنے کی سر پر دھن سوار ہوجاتی ہے۔پاکستان میں ایسے لوگوں میں ڈاکٹر محمد امجد ثاقب سب سے آگے ہیں۔
ہمارے ہاں تبدیلی کی بات ہوتی ہے۔ انقلاب کا تذکرہ ہوتا ہے ۔اس سے بڑی تبدیلی کیا ہوگی کہ ان کی ایک سوچ نے، ایک خیال نے کروڑوں لوگوں کوزندگی کو بدل کر رکھ دیا اور شمع سے شمع روشن ہورہی ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے مواخات مدینہ کی طرز پر اپنی تنظیم اخوت بنائی ہے۔ یہ تنظیم غریبوں کو بلا سود قرضہ فراہم کرتی ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کا مشن ملک سے غربت دور کرنااورسود سے پاک معاشرہ قائم کرنا ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب اور انکی تنظیم اخوت کا نام پوری دنیا کے طول و عرض میں پھیل چکا ہے۔یوں تو بنگلہ دیش میں گرامین بینک محمد یونس کی کاوش سے بے وسیلہ انسانوں کی داد رسی کررہاہے مگر محمد یونس اور ڈاکٹر محمد امجد ثاقب کے کام، کاز ،کارکردگی ،طریقہ کار اور شخصیات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے محمد یونس کو ’غریبوں کا خون چوسنے والا‘ قرار دیا تھا۔یونس پر ناروے کے ایک صحافی نے الزام عائد کیا تھا کہ خود کو ملنے والی کئی ملین یورو کی رقوم انہوں نے غریبوں کو قرضے دینے کیلئے نہیں بلکہ دوسرے نفع بخش کاروبار میں لگائی تھی۔ بنگلہ دیش کے وزیر خزانہ اے ایم اے مونس نے ڈھاکہ میں صحافیوں کو بتایا کہ بنگلہ دیشی حکومت نے اب اس معاملے میں ناروے حکومت کے فیصلے کو حتمی مان لیا ہے۔گرامین بینک قرض داروں کو دی جانے والی رقوم پر 20 فیصد شرح ء سود وصول کرتا ہے جو دیگر بینکوں کے مقابلے میں گو کم ہے مگر بے وسیلہ لوگوں کی برداشت سے باہر ہے۔ محمد یونس بینکار ہیں،ان کو مرکزی سرکاری بینک کے حکم پر گرامین بینک کے اعلیٰ ترین عہدے سے بر طرف کردیا گیا ۔ اس فیصلے کا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جب محمد یونس نے 1999ء میں خود کو غیر معینہ مدت کیلئے گرامین بینک کا مینیجنگ ڈائریکٹر مقرر کیا تھا تو انہوں نے ملکی مرکزی بینک سے اسکی منظوری نہیں لی تھی۔بنگلہ دیش کی وزارت خزانہ کے مطابق نوبل انعام یافتہ محمد یونس پر الزام تھا کہ انہوں نے چھوٹے پیمانے پر قرضے دینے کا کاروبار کرنے کیلئے حاصل شدہ غیر ملکی امداد میں غبن کیا تھا۔اس کے مقابلے میںاخوت شفافیت کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔
خلق خدا کی خدمت بلاشبہ افضل عبادت ہے اور خدا نے اس کام کیلئے کمالیہ کے فرزند ڈاکٹر امجد ثاقب کو چنا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کے ایک خیال نے کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو بدل دیا۔ڈاکٹر امجد ثاقب کی قیادت میں اخوت تحریک بھی پاکستان کو ترقی کی طرف لے جانے کیلئے کوشاں ہے۔ وہ غربت اور جہالت کے اندھیرے دور کرنے کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔ اب تک ایک کروڑ سے زائد لوگ ان کے بلاسود قرضوں سے مستفید ہوچکے ہیں۔ کاروبار کیلئے بلا سود قرضوں کے علاوہ مستحق لوگوں کو پہننے کیلئے مفت کپڑے دیئے جاتے ہیں۔ بے گھر لوگوں کو چھوٹے گھر بنا کر دیئے ہیں۔ چترال اور دیگر علاقوں میں کم آمدنی والے لوگوں کو ٹورسٹ ہٹس بنانے کیلئے بلا سودی قرضے دیئے گئے ہیں۔ ملک کو سرسبز بنانے لئے اب جسے بھی قرض دیتے ہیں ساتھ تاکید کرتے ہیں وہ کم از کم ایک پودا لگائے۔ گلگت ، ہنزا اور دیگر علاقوں میں شجر کاری مہم ے تحت لاکھوں پودے لگائے گئے اور یہ صدقہ جاریہ متواتر جاری ہے۔ ذہنی مریضوں کو در بدر کی ٹھوکروں سے بچانے اور انکی بحالی کیلئے امجد ثاقب کے ماموں ڈاکٹر رشید چوہدری مرحوم نے فاؤنٹین ہائوس لاہور اور فاروق آباد قائم کئے تھے، ڈاکٹر امجد ثاقب نے نہ صرف اس سلسلہ کو جاری رکھا بلکہ سرگودھا میں ایک اور فاؤنٹین ہائوس قائم کیا۔ اس کار خیر میں انکے بڑے بھائی عالمی شہرت یافتہ ماہر دماغی امراض ڈاکٹر افضل جاوید کا تعاون بھی حاصل ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے شہریوں کو ضروریات زندگی کی فراہمی ایک ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ خوشحال اور فلاحی معاشرہ ریاست کی سطح پر ہی تشکیل پاتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ خیراتی ادارے کوئی مستقل حل نہیں لیکن جہاں ریاست کی باگ ڈور ایسے ہاتھوں میں ہو جنہیں صرف ذاتی مفادات سے غرض ہو وہاں کیا توقع رکھی جاسکتی ہے اس لئے وہاں صرف ایسے فلاحی اداروں سے ہی توقعات وابستہ ہوتی ہیں۔ دنیا کے کئی اور ممالک کو پاکستان جیسی صورتحال کا سامنا تھا اور وہاں بھی سیاسی ابتری تھی لیکن وہاں کے لوگوں نے اپنی مدد آپکے تحت کوشش کا آغاز کیا اور آج بہت بہتر حالات میں رہ رہے ہیں۔ پاکستان میں اخوت جیسی تحریک آمد بہار ہے جس نے واقعی تبدیلی لا کر دکھائی ہے۔قرآنی تعلیم کا خلاصہ ہے کہ بقا صرف خدمت خلق کے کاموں میں ہے نہ کہ بڑی بڑی یادگاریں تعمیر کرنے میں۔جو خدا کی مخلوق کی خدمت کرتے ہیں وہ اللہ کے پیارے بندے ہوتے ہیں۔ ہم اللہ کے محبوب لوگوں کو نجانے کہاں تلاش کرتے پھرتے ہیں حالانکہ وہ ہمارے درمیان ڈاکٹر امجد ثاقب کی صورت میں موجود ہیں اور جب اللہ کے ایسے عظیم انسان ہمارے درمیان ہیں جو انسانی فلاح و بہبود کیلئے دن رات کوشاں ہیں تو تو پھر پاکستان مزید بھی ضرور بدلے گا۔تعلیم کے میدان میں بھی اخوت پیچھے نہیں ہے۔ اخوت کالج لاہور اور اخوت یونیورسٹی کے بعد اب اخوت قصور میں بھی اعلیٰ طرز کا تعلیمی ادارہ قائم کرنے جا رہا ہے۔ جہاں غریب مگر باصلاحیت طلباء و طالبات کو فری تعلیم دی جائیگی۔ اس منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اخوت کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ ہمارا ساتھ دیجئے۔ صرف ایک ہزار روپے کا عطیہ دیکر آپ کا نام اس ادارے کے بانیوں میں شامل ہو سکتا ہے۔
اخوت پاکستان میں قرض حسنہ کا منفرد پروگرام ہے جو مواخات مدینہ کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے غریب ‘ مستحق اور ضرورت مند افراد کو اپنا کاروبار شروع کرنے کیلئے پچاس ہزار تک کے بلاسود چھوٹے قرضے فراہم کرتا ہے تاکہ یہ لوگ عزت اور وقار کے ساتھ اپنا کاروبار شروع کر سکیں۔ اخوت پاکستان کے تین سو قصبوں میں پانچ سو برانچوں کے ساتھ غربت کیخلاف مصروف عمل ہے۔ اخوت کلاتھ بینک اخوت مائیکرو فنانس ہی کی ایک توسیع ہے اور اس پر ایک ہی ماڈل اور فلسفہ لاگو ہوتا ہے۔ صاحب ثروت خاندانوں سے وصول کئے گئے کپڑوں کو درست حالت میں لانے ‘ انکی دھلائی/ڈرائی کلینگ کے بعد ان کی پیکنگ کی جاتی ہے۔ ان پیک کیے ہوئے کپڑوں کو نہایت عزت اور احترام کے ساتھ غریب خاندان میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ خواجہ سرائوں کا تعلق ہمارے معاشرے کی سب سے زیادہ ٹھکرائی جانیوالی تیسری جنس سے ہے۔ اخوت کلاتھ بینک کی افادیت کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے لوگوں کو جنہیں حقارت سے ہیجڑا کہا جاتا ہے‘ اخوت کلاتھ بینک میں امیر خاندانوں کی طرف سے عطیہ میںدیئے گئے انکے قابل استعمال کپڑوں کی درستگی ‘ دھلائی/ڈرائی کلینگ اور پیکنگ کرنے کیلئے ذریعہ معاش فراہم کیا ہے۔؎
یہی ہے محبت یہی دین و ایماں
کہ کام آئیں دنیا میں انساں کے انساں