• news
  • image

چیف جسٹس صاحب! یہ قوم انصاف کیلئے ترس رہی ہے

پون صدی کا قصہ ہے مگر اس قوم کو افاقہ نہیں آیا۔ درد تو دل میں تھا لیکن علاج قبض کا کیا جاتا رہا وہ بھی جلاب دینے کے بجائے اینٹی بائیوٹکس پر لگا دیا گیا جسکے سینکڑوں سائیڈ ایفکٹس کے بعد نہ بیماری رہتی نہ بندہ رہتا۔ دنیا بھر میں پا کستان واحد ملک ہے جہاں غیر طبعی اموات کا ریکارڈ سب سے زیادہ ہے۔ کبھی ڈینگی‘ سوائن فلو‘ برڈ فلو‘ انفلوئنزا سے بے وجہ اموات ہوتی ہیں تو کبھی ڈاکٹروں کی جہالت اور غفلت سے روزانہ 200 افراد غیرطبعی اموات مرتے ہیں۔ یہ اموات نہیں بلکہ قتل ہیں‘ وہ بھی مجرمانہ قتل لیکن پاکستان میں کسی ڈاکٹر کو اس پر سزائے موت نہیں دی جاتی‘ نہ عمر قید اور نہ ہی کسی قسم کی سزا… جبکہ دنیا بھر میں ڈاکٹر کی معمولی سی غفلت یا لغزش پر عدالت سخت سزائیں سنائی جاتی ہیں اور ہتھکڑیاں ڈال کر جیل میں بھیج دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی ڈاکٹروں کی جعلی ڈگریوں‘ جہالت‘ غفلت اور بے توجہی کی وجہ سے کیس بگڑنے اور غیرطبعی موت پر سخت سزائیں دینے کے قوانین بننے چاہئیں۔ سب سے زیادہ طالب علم ڈاکٹر بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ حالانکہ استاد ایک بہت بڑا رہنما ہے جو ہر ایک میں علم تقسیم کرتا ہے اور اچھائی برائی میں امتیاز کرنا سکھاتا ہے‘ اخلاق کو سنوارتا اور عمل کو نکھارتا ہے۔ فوج میں جانا اس سے بھی بڑا اور عظیم پیشہ ہے جہاں ایک فوجی اپنی جان پر کھیل کر اپنی قوم کی حفاظت کرتا ہے۔ انجینئرنگ‘ وکالت‘ بینکنگ‘ بزنس سبھی پیشے انتہائی اہم ترین ہیں۔ جرنلسٹ‘ جج‘ جرنیل اور جمہوری حکمران بہت ہی بڑے اور اہم پیشوں والے لوگ ہیں لیکن ہماری ستر سالہ تاریخ میںکرتوت سیاہ کے کئی ابواب ہیں۔ کچھ حکمرانوں‘ سیاستدانوں‘ جرنیلوں نے ملک کو دولخت کیا‘ ملک کے کئی حصے گنوائے‘ کچھ ججوں نے اپنے انتہائی اہم پیشے کو داغ لگایا‘ کون بے وقوف کہتا ہے کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں‘ داغ تو ہمیشہ ذلت‘ رسوائی اور سیاہی چھوڑ کر جاتے ہیں۔ بیوروکریسی نے بھی آج تک جو گل کھلائے ہیں ان میں پھول کم اور کانٹے زیادہ نکلے۔ صحافت سے لوگوں کی توقعات جڑی تھیں لیکن ان تیس چالیس سالوں میں (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی نے صحافت میں بھی قلم کے سودے کئے۔ صحافت کا قلم اٹھا کر صحافت کے تقدس کی دھجیاں کرنیوالوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں لیکن ان سب سے زیادہ مولویوں نے مذہب کی آڑ میں بڑے بڑے مفادات حاصل کئے۔ پاکستان میں ’’مذہب‘‘ اپنی عاقبت سنوارنے کیلئے نہیں بلکہ اپنا آج اور کل سنوارنے کیلئے ہر سطح پر ہر شخص استعمال کرتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بشریٰ بی بی نے محض عمران خان سے شادی کیلئے اپنے خاوند سے 35 سالہ ازدواجی مسرتیں سمیٹنے کے بعد طلاق لے لی اور کہا کہ نعوذ باللہ بی بی کو بشارت ہوئی ہے اور اس میں عمران خان سے شادی کرنے کا کہا گیا ہے۔ یہ ازخود بشارتیں اور بھجارتیں سو فیصد خودساختہ ہوتی ہیں۔ کوئی اور شخص کہتا تو شاید بات میں وزن ہوتا۔ ’’پنکی پیرنی‘‘ کے نام سے ہی جعلی پیرنی پن کا پتہ چلتا ہے۔ اگر اس خاتون کو پیرنی بننے کا شوق ہی تھا تو کوئی اردو یا عربی کا لفظ استعمال کرتی۔ عمران خان کون سے ایسے نیکوکار‘ متقی پرہیزگار ہیں کہ اس خاتون نے اپنے خاوند سے 35 سالہ رفاقت توڑ دی اور عمران خان سے شادی کرکے ایسا کون سا چمتکار دکھانا چاہتی ہے۔ عمران خان کے پی کے میں ایسا کون سا تیر مارا ہے پورا خیبر پختونخواہ پسماندہ ہے‘ تھوڑا بہت پشاور ماڈرن ہوگیا ہے یا نتھیا گلی کی ایک سڑک جو عمران خان کے ریسٹ ہائوس تک جاتی ہے وہ پختہ اور عمدہ بنائی گئی ہے۔ یہ واحد تبدیلی ہے ورنہ پورا صوبہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ سوات کا تو یہ حال ہے کہ وہاں کی سڑکیں سولہویں صدی کا نقشہ پیش کرتی ہیں۔ عمران خان کو سوچنا چاہئے کہ اس کھیل کی آڑ میں بشریٰ بی بی اور ان کا خاوند خاور مانیکا عمران خان کی جائیداد ہڑپ کرنے کا تو پروگرام نہیں بنا رہے کیونکہ عمران خان کے تیسری بار طلاق دینے یا مرنے کے بعد دونوں میاں بیوی شرعی طور پر پھر شادی کرسکتے ہیں۔ عمران خان کی عمر ویسے تو اب اللہ اللہ کرنے کی ہے اور اگر انہیں قوم کی حالت سدھارنے اور پاکستان بدلنے کا واقعی احساس ہے تو یہ شادی کے بغیر زیادہ بہتر طریقے سے ممکن ہے۔ عمران خان کو تیس معاشقوں اور تین شادیوں کے چکر سے نکل آنا چاہئے۔ ساری زندگی انکی افیئرز میں ہی گزری ہے۔ ایما سارجنٹ‘ سیتاوائٹ‘ جمائما‘ ریکھا‘ زینت امان‘ ریحام خان‘ بشریٰ بی بی عائلہ خان اور خدا جانے کون کون … ابھی ایک پروگرام میں جوہی چاولہ نے یہ بتا کر حیران کردیا کہ عمران خان نے انہیں بھی شادی کی آفر کی تھی۔ بھارت کی ایک درجن اداکارائیں بتا چکی ہیں کہ عمران خان نے انہیں شادی کی پیشکش کی تھی۔ عمران خان مصطفی کھر بننے کی کوشش کررہے ہیں اور بھول رہے ہیں کہ مصطفیٰ کھر کا انجام کیا ہے۔ دو دن قبل عمران خان نے ایک اور مضحکہ خیز بیان دیکر خودکو کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ وزیراعظم بننے کے بعد میں ٹرمپ سے ملوں گا۔ اس بیان سے عمران خان کی مقبولیت کے علاوہ دماغی صحت کا گراف بھی گر گیا ہے۔چیف جسٹس صاحب ایک بیٹی کی گزارش ہے کہ ملک کو کرپٹ ٹولے سے پاک کریں‘ باتیں اور تقریریں تو سبھی کرتے ہیں۔ برائے مہربانی ہمیں ایک صاف ستھرا معاشرہ دیجئے۔ کرپشن‘ ریپ‘ قتل اور ناانصافی کرنیوالے کو تختہ دار پر لٹکائیں تاکہ آنیوالوں کو عبرت ہو۔ ہم اس ملک میں سکون اور انصاف کیلئے ترس گئے ہیں…

epaper

ای پیپر-دی نیشن