ناز بٹ کیلئے ایک ادبی کالم
آج کل ادبی کالم لکھنے کا رواج نہیں مگر کالم میں اسلوب کو محبوب بنایا جائے، اچھی نثر لکھی جائے کہیں کہیں مزاح کا بھی تڑکا لگایا جائے تو مزا آ جاتا ہے۔ آج کل بہت کالم روزانہ شائع کرنا اخبارات کی ضرورت بن گیا ہے۔ دوستوں کے لیے سیاسی موضوعات سے گریز کرنا شاید ممکن ہی نہیں رہا۔
بہت معروف اور بہادر شاعرہ ناز بٹ کے ساتھ ایک تقریب ہوئی۔ تقریب کسی ہوٹل میں ہو تو مزا دوبالا ہو جاتا ہے۔ میں نے وہاں کہا کہ ایسی مزیدار محفلیں ہوتی رہنی چاہئیں۔ لوگ بہت زیادہ نہ تھے اور مقررین نے واقعی مختصر خطاب کیا۔ مختصر نویسی اصل میں معجز نگاری ہے۔ تفصیل میں لطف نہیں رہتا۔ لگتا ہے جیسے کسی بات کی وضاحت کی جا رہی ہے۔ اچھے جملے بھی سننے کو ملتے ہیں۔ سامعین اور مقررین ایک ہو جائیں تو اچھا لگتا ہے۔ کہا گیا کہ کمپلیکس فری خاتون شاعرہ نے بڑی قلیل مدت میں اپنا نام اور مقام بنایا ہے۔ انہوں نے اپنے نام کی لاج رکھی ہے۔ وہ اپنے نام کے ساری معانی جانتی ہیں۔ انہیں اسم بامسمیٰ کہنا چاہئے۔ ناز بٹ اس طرح ادبی معاشرے میں ہیں کہ ہم سب ان کی بہت پسندیدہ شخصیت کی وجہ سے ان کے لیے ناز کرتے ہیں۔ ایسی خواتین شاعرات کچھ زیادہ ہمارے ہاں ہونا چاہئیں۔
یہ سمارٹ سی محفل ورلڈ کالمسٹ کلب کے زیراہتمام ہوئی۔ برادرم ناصر اقبال خان بہت سرگرم رہتے ہیں کہ ادبی محفلیں چلتی رہیں۔ اب شہر میں ناصر کی سرگرمیوں کے گرد ادبی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ وہ بہت دوستدار آدمی ہیں۔
نوائے وقت کے چیف نیوز ایڈیٹر اور ہمارے دوست دلاور چودھری کو صحافت سے کھینچ کے ادب کی طرف لے آیا گیا ہے۔ اس طرح ادب و صحافت میں فاصلے نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ لوگ اکثر ادب سے صحافت کی طرف آتے ہیں۔ آپ اخبارات میں کالم نگاروں کے نام پڑھ لیں۔ دلاور چودھری صحافت کی طرف سے ادب کی طرف آئے ہیں۔
محفل کے میزبان آصف عنایت بٹ تھے۔ کمپیئرنگ ناصر اقبال خان نے کی اور خوب کی۔ دوستوں کے ساتھ گھل مل جانے والے چودھری سرور دیر سے آئے اور دیر تک خطاب کیا۔ بہت اچھی باتیں کیں۔ ان کا یہ رویہ بتاتا ہے کہ وہ عوامی آدمی تو ہیں۔ دوستدار آدمی بھی ہیں۔ انہوں نے بہت دوستوں کے لیے بات کی اس کا کریڈٹ ناز بٹ کو جاتا ہے۔ ان کی وساطت سے یہاں سب لوگ صاحب ذکر ہو گئے تھے۔
ناز بٹ کا بیٹا ہمارا دوست سلمان طارق بھی باتوں کے موضوع میں رہا۔ وہ پچھلے دنوں زخمی ہوا تھا۔ اس کی صحت یابی کی خوشی بھی اس محفل کی دلچسپی بڑھاتی رہی۔ سلمان نے تقریر بھی کی۔ وہ نوائے وقت میں کالم بھی لکھتا ہے۔ اس کی ماں ناز بٹ کا خطاب بہت غور سے سنا گیا۔ وہ واقعی مہمان خصوصی تھیں۔ حاضرین نے انہیں بڑے مزے سے سنا۔
ڈاکٹر نبیلہ طارق بہت نمایاں تھیں۔ وہ شعر و ادب کے ساتھ بہت مخلص ہیں۔ جس طرح یہ ان کی اپنی محفل ہو۔ میں بڑی دیر سے دیکھ رہا ہوں کہ وہ بڑھ چڑھ کر ادبی سرگرمیوں میں شریک ہوتی ہیں۔ اچھی شاعرہ ہیں۔ سردار مراد علی خان اور سید اسد علی شاہ نے بھی بات کی۔ مرزا رضوان نے نعت پڑھ کر سماں باندھ دیا۔ عام طور پر محفل میں نعت خواں کا ذکر خبروں اور کالموں میں نہیں آتا مگر یہاں میں مرزا رضوان کو نہیں بھول سکتا۔
عائشہ جاوید سیاستدان ہیں اور ایم پی اے ہیں۔ ان کی ادبی محفلوں میں شرکت سے شعر و ادب والوں کا حوصلہ بلند ہوتا ہے۔ میری خواہش ہے کہ عائشہ جاوید کی طرح سیاستدان بھی ادب و فن کی مصروفیتوں کو اپنائیں۔ ایک خاتون یہاں اور بھی تھی، رفعت منور جس سے ایک اچھا تاثر ہوا۔ اتنی خواتین عام طور پر ادبی محفلوں میں نہیں ہوتیں۔
ایک بہت بڑی سماجی شخصیت قیصر امین بٹ دیر سے آئے مگر کئی دوست ان کا انتظار کرتے رہے۔ دیر سے آنے والا بھی محفل کی اہمیت کو سمجھتا ہوتا ہے۔ قیصر صاحب کچھ دیر بیٹھے رہے۔ باقاعدہ ایک محفل لگ گئی۔ یہ ناز بٹ کی مقبولیت کا ثبوت ہے کہ ایک محفل میں کئی محفلیں ہو گئیں۔ تقریب کے بعد بھی بہت دیر تک دوست موجود رہے۔ اصل گپ شپ ہوئی، بے تکلفی ایک خوبی ہے جو ماحول کو آسان کر دیتی ہے۔ تلہ گنگ میں میرے بڑے بھائی پروفیسر محمود اکبر رہتے ہیں۔ ممتاز اعوان نے پہلے تلہ گنگ کا نام لیا۔ میرے چہرے پر ایک چمک دیکھ کر خوش ہوا میں بھی خوش ہوا۔
آخر میں میں ناز بٹ کی ایک تازہ غزل دیکھیے۔ میں نے ایک غیر مطبوعہ غزل ان سے لے کے اپنے کالم میں شامل کی ہے۔ یہ وہ غزل نہیں جو انہوں نے محفل میں پڑھی تھی۔ ان کے پڑھنے کا انداز بھی اچھا ہے۔
ہر اک موسم کی نیت جانتی ہیں
ہوا کے ڈر سے شاخیں کانپتی ہیں
مجھے ہے بددعا شاید کسی کی
مری آنکھوں سے نیندیں بھاگتی ہیں
بدن میں سرسراتی ہے خموشی
رگوں میں وحشتیں سی ناچتی ہیں
عجب سی کیفیت ہے بے بسی کی
میں سو جا¶ں تو آنکھیں جاگتی ہیں
کوئی ان کا بھی آ کر ہاتھ روکے
وہ یادیں جو دلوں کو کاٹتی ہیں
آصف عنایت بٹ کلب کے ”وزیر خزانہ“ ہیں.... فنانس سیکرٹری، وہ افسانہ نگار اور کالم نگار ہیں ورنہ ورلڈ کالمسٹ کلب کا ممبر ہونے کے لئے کالم نگار ہونا ضروری نہیں۔
٭٭٭٭٭