قوم کسی محمد بن قاسم کے انتظار میں ہے
مکرمی! کلمہ طیبہ کے نام سے حضرت قائداعظم اور دیگر عظیم ہستیوں کی قربانیوں سے حاصل کئے گئے پاکستان جس کے بننے سے لیکر آج تک آخر یہ کون لوگ ہیں جو کسی کی گرفت میں نہیں آتے۔ جو کسی کو جواب دہ نہیں ہیں اور جنہوں نے ریاست کے اندر ریاست بنا رکھی ہے۔ وطن عزیز میں ہزاروں لوگ اغواہ ہو چکے ہیں جنھیں کہیں رات کے اندھیروں میں اور کہیں روشن دن میں اٹھایا گیا اور نامعلوم مقامات پر منتقل کر دیا گیا۔ ان میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کا قصور یہ ہے کہ وہ سوچتے ہیں، سوال اٹھاتے ہیں اور مظلوم کی آواز بنتے ہیں لیکن شاید اس دیس میں مظلوم کی آواز بننا بھی ایک جرم ہے اور اس جرم کی سزا بہت سخت ہے جس کا تعین کسی عدالت میں نہیں ہونا بلکہ ایسے لوگ کرتے ہیں جن کا نہ تو علم سے کوئی علاقہ ہے اور نہ ہی دانش سے اور جہاں علم و دانش نہ ہو وہاں صرف طاقت ہی راج کرتی ہے لیکن آفریں ہے دھرتی کے ان بہادر سپوتوں پہ کہ ہر قسم کے خوف و ڈر کو بالائے طاق رکھ کر حق کی سربلندی کے لئے آواز اٹھاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہمارا آواز اٹھانا کبھی تو رنگ لائے گا اور فیض صاحب کا خواب ’’ہم دیکھیں گے…‘‘ شرمندۂ تعبیر ہو گا۔وطن کے ان غم خواروں کی امید زندہ ہے کہ کسی دن تو ایسا ہو گا کہ کسی غریب کو کوئی وڈیرہ یا جاگیر دار ظلم کی بھٹی میں نہیں ڈالے گا۔ قتل کر کے وکٹری کا نشان بناتے ہوئے قانون کا منہ نہیں چڑھائے گا بلکہ وقت کا عظیم مسیحا اسے کھلے عام چوراہوں میں گلے میں پھندا ڈال کر لٹکائے گا کیونکہ ظلم جب بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ وطن عزیز میں کسی بھی شریف و غریب انسان کی زندگی محفوظ نہیں۔ جب سے پاکستان بنا ہے فرشتہ سیرت معصوم زینب جیسی ہزاروں بچیاں لٹ اور مٹ چکی ہیں لیکن ان کی حفاظت کیلئے کوئی جامع حکمت عملی نہیں اپنائی جا سکی۔ اب عوام کسی محمدبن قاسم کے انتظار میں ہیں۔ (چودھری محمد طارق سابق میونسپل کونسلر گڑھی شاہو)