تجھ پہ سجتی ہے حیا کسی زیور کی طرح
’’صدر‘‘ زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے ایسی باتیں کرنا شروع کی ہیں جو سیاسی حوالے سے بھی قابلِ غور ہیں اور تخلیقی کیفیتوں سے بھی مالامال ہوتی ہیں۔ ’’صدر‘‘ زرداری نے کہا کہ ’’میں بھٹو نہیں ہوں مگر میرے اندر بھٹو کی روح آ گئی ہے‘‘ اب اگر موقعہ ملتا ہے تو کچھ نہ کچھ بھٹو جیسا ہونا چاہئے۔ بھٹو نے نیشنلائزیشن کی تھی جسے بیوروکریسی نے ناکام بنایا۔ میں اسی دن سے بیوروکریسی کو ’’برا کریسی‘‘ کہنے لگا ہوں اگرچہ برا کریسی میں اچھے لوگ بھی ہیں مگر کوئی اسے ’’اچھا کریسی‘‘ نہ بنا سکا۔
عمران نے کہا کہ سندھ کی حالت بدلنے کے لئے زرداری اور فریال تالپور کو جیل میں ڈالنا پڑے گا۔ یہ بیان ایک بڑے سیاستدان کے لئے زیب نہیں دیتا۔ اقتدار میں آئے بغیر اس طرح کی سوچ ساتھی سیاستدانوں کے لئے اچھی نہیں ہے۔
اپنے زمانے کے سب سے بڑے اور بہادر صحافی اور ایڈیٹر نوائے وقت مجید نظامی مرحوم نے زرداری کو ’’مرد حر‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ وہ پیپلز پارٹی سے کوئی تعلق نہیں رکھتے تھے پھر نواز شریف نے سعودی عرب سے آتے ہی شکوہ کیا تو آپ نے کہا کہ تم بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے تو تمہیں بھی میری طرف سے محبت ملتی۔
عنبرین فاطمہ نے سنڈے میگزین کے لئے اپنی تحریر کے ساتھ ایک تصویر شائع کی ہے۔ تصویر اور تحریر دونوں متاثر کرتی ہیں۔ وہ لڑکی خوبصورت ہے اور شرم و حیا سے مزید پسندیدہ ہو گئی ہے۔ ثابت ہو گیا ہے کہ فطری شرم و حیا کی کیفیتوں سے حسن میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ خوبصورت مصرعہ تحریر کا عنوان ہے۔ میری اہلیہ رفعت خانم کو یہ مصرعہ بہت پسند آیا ہے۔
تجھ پہ سجتی ہے حیا کسی زیور کی طرح
’’اگر ہمارے سیاستدانوں میں شرم و حیا پیدا ہو جائے تو سیاسی چہرہ بھی خوبصورت ہو جائے گا۔ باوجود اس کے بینظیر بھٹو دو دفعہ وزیراعظم بنیں حکمران رہیں مگر ان کے چہرے پر ہمیشہ شرم و حیا کا ایک عکس رقصاں رہتا تھا۔ وہ لیڈر تھیں۔ ان کے لئے عزت پیدا ہوتی تھی اور محبت پیدا ہوتی تھی اور محبت عزت کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوتی۔
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
ایک بہت محبوب گلوکار شہزاد رائے نوجوان لیڈر بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ بیٹھا ہوا نظر آیا۔ اس نے بہت اعتماد سے باتیں کیں۔ مجھے ایک سیاسی لیڈر کے ساتھ ایک فنکار کا ہونا بہت اچھا لگا۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بھی ساتھ بیٹھے تھے۔ مگر بات صرف بلاول نے اور شہزاد رائے نے کی۔ موضوع قصور کی بے قصور بچی زینب کے ساتھ انسانیت سوز زیادتی تھا۔ بچوں کی ٹریننگ کے لئے بہت کچھ کیا جا رہا ہے مگر یہ سب بے فائدہ ہے اور ممکن نہیں ہے۔ اس کے لئے صرف درندہ صفت لوگوں کو عبرتناک سزا دینا ضروری ہے جہاں سے زینب کی لاش ملی۔ وہیں گندگی کے ڈھیر پر مجرم کو سنگسار کیا جائے تو پھر بچوں اور لوگوں کو بے شک ٹریننگ نہ دو۔ صرف مجرموں کو سرعام سزا دے کے دوسرے مجرم بنتے ہوئے لوگوں کو ٹریننگ دو۔ سب ٹھیک ہو جائے گا انشاء اللہ۔
یہ سب کچھ اس شہر میں زیادہ تر کیوں ہوا۔ یہاں کے ممبران اسمبلی اور سیاستدانوں اور مال دار وڈیروں کو شامل تفتیش کرو پھر دیکھو کہ کیا کیا باتیں سامنے آتی ہیں۔ یہاں جرم وڈیرے کرواتے ہیں اور پھر متعلقہ لوگوں کو چھڑواتے ہیں اور اپنے ووٹ پکے کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ جمہوری دور میں اکثر ہوتا ہے۔ اس شہر میں ایسے گندے واقعات کی حد ہو گئی ہے مگر پولیس والوں کو کچھ کرنے ہی نہیں دیا گیا تو پھر پولیس والے ظالموں اور مجرموں کے ساتھی کیوں نہ بنیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف ایک بڑے منتظم اور سخت گیر حاکم سمجھے جاتے ہیں تو اس طرح کے واقعات کے لئے غفلت اور بے حسی کو کیوں برداشت کیا جاتا ہے۔
ایک تخلیقی اور فلاحی سماجی شخصیت ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے قصور میں درندگی کے حوالے سے ایک بیش بہا اور زبردست کتاب لکھی ہے۔ ٹین ایجر گائیڈ۔ اس کے لئے برادرم اسداللہ غالب نے کالم لکھا ہے جو بہت حیرت انگیز ہے۔ اتنی جلدی کتاب لکھ دینا بہت بڑی بات ہے۔ میں نے بھی دو کالم لکھے ہیں مگر غالب کا تعلق قصور سے ہے اس نے اپنے شہر کی کسمپرسی اور بے بسی کو محسوس کرتے ہوئے اپنے جذبات کا حق ادا کر دیا ہے۔ ڈاکٹر آصف محمود جاہ محکمہ کسٹم میں اچھے خاصے افسر ہیں مگر یہ کام وہ زیادہ کرتے ہیں۔ پاکستان سے باہر بھی مظلوم اور مجبور لوگوں کے پاس پہنچتے ہیں۔ کتاب کا اصل نام ’’بچپن بھولپن لڑکپن‘‘ ہے۔ ڈاکٹر صاحب جانتے ہیں کہ ہم نے اپنے بچوں سے ان کا بچپن چھین لیا ہے۔ میں کہا کرتا ہوں پھر کہتا ہوں کہ اس دوزخ بنتی ہوئی زمین پر بچے جنت کے باشندے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو کھینچ کر اپنی دوزخ میں لا رہے ہیں۔ ہم کتنے ظالم ہیں۔