آئیں مل کر جمہوریت کو بچائیں
1977ء کی بات ہے، بھٹو مرحوم کی حکومت کا تختہ الٹا جا چکا تھا، نو ستارے عروج پر تھے، ان کا اوج ثریا تھا۔ اصغر خان مرحوم، مولانا نورانی مرحوم، مفتی محمود مرحوم، نصراللہ خان مرحوم، ولی خان مرحوم جو ان دنوں جیل میں تھے ان کی جگہ بیگم نسیم ولی خان پارٹی کی قیادت کر رہی تھیں، وہ بقید حیات ہیں۔ بھٹو کے خلاف پورے جوش و جذبے سے تحریک چلا کر جمہوریت کو مارشل لاء کے قبرستان میں دفن کر چکے تھے اور اس خوش فہمی میں تھے کہ جنرل ضیاء الحق مرحوم 90 دن میں الیکشن کرا کے اقتدار ان کے سپرد کر دیں گے مگر تاریخ گواہ ہے ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ ایک آمر نے ان سب سیاستدانوں کو ٹشو پیپر کی طرح اٹھا کر ڈسٹ بن میں پھینک دیا۔ اسی آمر نے نہایت رعونت سے یہ بھی کہا کہ آئین کیا ہے چند صفحوں کی کتاب جسے میں جب چاہوں پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک سکتا ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ بھی ارشاد فرمایا کہ سیاستدان کیا ہیں میں جب چاہوں سیٹی بجائوں، یہ دم ہلاتے میرے پیچھے پیچھے نظر آئیں گے۔
یہ ارشادات عالیہ کوئی صدیوں پرانی دستاویزات میں سے نہیں چند دہائیوں بیشتر اخبارات و رسائل میں بآسانی مل سکتے ہیں۔ ان کو سامنے رکھ کر ہمارے موجودہ سیاستدان مستقبل کا لائحہ عمل باآسانی تیار کر کے اس وقت سے بچ سکتے ہیں جب کوئی ضیاء الحق جیسا دوسرا آمر ان کے بارے میں، آئین کے بارے میں وہی کچھ کہتا نظر آئے اور ان تمام سیاستدانوں کو ٹشو پیپر کے طور پر استعمال کر کے ڈسٹ بن میں نہ پھینک دے۔
پھر یہ دیکھنے والے بھی زندہ ہیں کہ اس آمر سے نجات کے لئے یہی سب مرحومین سیاستدانوں کا ٹولہ 1977ء کے کچھ عرصہ بعد ایم آر ڈی کے نام پر اکٹھا ہو کر اسی پیپلز پارٹی کی قائد کے قدموں میں بیٹھا نظر آیا۔ بھٹو کو سزائے موت سنائے جانے کے بعد پیپلز پارٹی نے ناصر باغ لاہور میں ایک بڑا جلسہ منعقد کیا۔ بیگم نصرت بھٹو نے اس جلسے سے خطاب کیا۔ ناصر باغ، مال روڈ اور کچہری کے اطراف میں سر ہی سر نظر آتے تھے۔ اس جلسے میں نصرت بھٹو نے کہا تھا کہ میں بیگم نسیم ولی خان کی طرح اپنے شوہر کی زندگی کیلئے بھیک نہیں مانگوں گی، کسی آمر کے پیروں میں اپنا دوپٹہ نہیں ڈالوں گی، پھر انہوں نے عوام کو بیٹے کہہ کر پوچھا کہ کیا وہ اپنی ماں کی چادر کسی آمر کے پائوں میں ڈالنے دیں گے تو پورا جلسہ گاہ نہیں، نہیں اور جنرل ضیاء مردہ باد کے نعروں سے گونجتا رہا۔ جنرل ضیاء نے اپنی آمریت کو برقرار رکھنے کیلئے اور دوسرے سرپھرے سیاستدانوں کو قابو میں کرنے کیلئے بھٹو کو پھانسی دیدی تو سب کو سانپ سونگھ گیا۔ انہیں پتہ چل گیا کہ اب اس آمریت کے شکنجے سے بچنا مشکل ہے تو انہوں نے سر تسلیم خم کر لئے، ہتھیار ڈال دیئے مگر کچھ ہی عرصہ بعد یہی سب بھٹو کو پھانسی چڑھانے کے مطالبے کرنے والے اسکی موت پر مٹھائی بانٹنے والے اسی نصرت بھٹو کے زیرقیادت جمہوریت کی بحالی کیلئے بیعت کرتے حلف اٹھاتے نظر آئے مگر اس کام میں پھر برسوں لگ گئے۔
آج بھی ملک میں کچھ ایسی ہی صورتحال پیدا ہوتی نظر آ رہی ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں، لگتا ہے سب کو جمہوریت کا مردہ دفن کرنے کی جلدی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو ہٹانے کی کوشش اپنی جگہ یہ سیاسی جماعتوں کا حق ہے مگر یہ کیا کہ غیر جمہوری طریقوں اور ہتھکنڈوں کو استعمال میں لایا جائے، ایک بار پھر کسی آمر کی آمریت کو کاندھے فراہم کئے جائیں، باہمی سیاسی چپقلش کو اس حد تک لے جایا جائے کہ واپسی کا راستہ ہی نہ بچے اور کوئی آمر آ کر پھر کئی برسوں کے لئے جمہوریت کی راہ کھوٹی کر دے اور بعد میں یہی عمران خان، آصف زرداری، نواز شریف اکٹھے ہو کر کسی کنٹینر پر چڑھ کر جمہوریت کا ماتم کرتے دکھائی دیں جس طرح ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم پر ساری بھٹو اور اینٹی بھٹو سیاسی جماعتیں مل کر آمریت مردہ باد کے نعرے لگاتی جمہوریت بحال کرنے کا رونا روتی نظر آتی تھیں۔ آج اگر حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں جلسے جلوس اور دھرنے نکال رہی ہیں تو یہ سب اسی جمہوریت اور جمہوری نظام کی برکات ہیں ورنہ آمریت کے دور میں تو انہی جماعتوں کو چند درجن کارکن بھی دستیاب نہ ہوں گے کارنر میٹنگ کیلئے بھی…! یہ بات پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ والے اچھی طرح جانتے ہیں۔
تحریک انصاف والے چونکہ ابھی صرف جنرل مشرف کے آمریت اور مارشل لائی دست شفقت سے ہی لطف اندوز ہوئے ہیں اس لئے وہ شاید اس حقیقت سے پوری طرح واقف نہیں کہ یہ راہ کتنی کٹھن اور جانگسل ہے اس لئے بہتری اسی میں ہے کہ حزب اختلاف ہو یا حزب اقتدار مل جل کر جمہوریت کو بچائیں۔ یہ دھرنے اور دھڑن تختہ کرنے کے پروگرام کسی کو کچھ نہیں دیں گے۔ سب ٹاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا…!
سانحہ کارساز ہو، ماڈل ٹائون ہو یا سانحہ بلدیہ، بھٹو کی پھانسی ہو یا بے نظیر کا قتل، نواز شریف کی جلاوطنی ہو یا نااہلی… ان باتوں کا سراغ لگانا صرف اور صرف جمہوری نظام میں ہی ممکن ہے تاکہ ایسا کرنے والوں کا احتساب یا سدباب ہو سکے مگر ان مسائل کو اچھال کر جمہوریت کے خلاف ہی برسرپیکار ہونا کہاں کی دانشمندی ہے۔ موجودہ حکومت نے اپنا تقریباً سارا وقت مکمل کر لیا ہے اب چند ماہ بعد صرف الیکشن کا ڈھول بجنا ہے تو ایسے وقت میں ایک غیرملکی شہری کی قیادت میں اسکے پھینکے گئے جال میں پھسنے کی ضرورت کیا ہے۔ کیا عمران خان اور آصف زرداری مولانا طاہر القادری سے کم عقل مند ہیں یا کم سیاسی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں کہ ان کی باتوں میں آ کر جمہوری نظام کو ہی تلپٹ کرنے میں انکے معاون بن رہے ہیں۔ قادری صاحب کا کیا ہے وہ پہلے کی طرح ایک بار پھر یہ دھرنا ادھورا چھوڑ کر رفوچکر ہو جائیں، عمران خان اور آصف زرداری نے تو پاکستان میں رہ کر ہی سیاست کرنی ہے تو وہ اپنی راہ کھوٹی کیوں کر رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کو وقت مکمل کرنے دیں، بروقت الیکشن کے انعقاد کو یقینی بنائیں تاکہ عوام کے سامنے سرخرو ہو سکیں۔ پھر جو جیتے وہ آ کر عنان حکومت سنبھالے۔