• news
  • image

وِچوں گل کوئی ہور اے!

کیا کوئی بڑا کارزار سجنے والا ہے؟کیا دھرتی کی مانگ میں لہو کی بوندیں اتارنے کا وقت آنیوالا ہے؟کیا جلتے لوتھڑوں کی سڑانڈ سے دماغ سلگنے کا لمحہ سر پر آن پہنچا ہے؟ کیا سر بریدہ لاشوں سے اٹھنے والی بساند کے بھبکوں کے ہر سو پھیلنے میں کوئی پل باقی نہیں بچا؟ان سوالوں کا جواب اگر ’’ہاں‘‘ ہے تو اِس کارزار سے کامیاب لوٹنے کی تیاری کیا کی گئی ہے؟اگر جواب اثبات میں ہے تو اس معرکہ سے سرخرو پلٹنے کی حربی حکمت عملی کیا بنائی گئی ہے؟اور اگر جواب ’’نہیں‘‘ ہے تولاشوں کو نوچنے کیلئے بھیڑیوں کے غول کیوں غراتے پھرتے ہیں؟ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر یہ وطن کے افق پر دیسی بدیسی گدھوں کے جھنڈ کے جھنڈ کیوں منڈلاتے پھررہے ہیں؟زیادہ تر گدھ تو خیر پاکستان کے ہی ہیں ، لیکن کچھ کرگس ایسے بھی ہیں جو ضرورت بہ ضرورت اور وقت بوقت دوسرے ممالک سے آن دھمکتے ہیں اور مقامی گدھوں کے ساتھ مل کر لاشوں کی بو سونگھنا شروع کردیتے ہیں!لیکن یہ بدیسی کرگس اگر محض لاشوں کے متلاشی ہوتے ہیں تو اُنہیں اِس قدر دور آنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا براعظم امریکہ کے مختلف ممالک میں مرداروں کی کوئی کمی واقع ہوچکی ہے؟ یقینا نہیں! تو پھر ’’وِچلی گل‘‘ کیا ہے؟

اب کینیڈا کو ہی لے لیں! کینیڈا کوئی مکمل جائے امن نہیں ہے۔ سرکاری ادارہ ’’شماریات کینیڈا‘‘ کی رپورٹس کے مطابق امریکہ سے ملحقہ کینیڈین صوبے ’’مانیتوبا‘‘ کے دارالحکومت ’’وینی بیغ‘‘میں قتل کے مقدمات کی شرح خوفناک حد تک زیادہ یعنی 5.1 فیصد ہے۔مثال کے طور پر سال 2011ء میں اس صوبے میں ہر بیسواں شخص کسی ناں کسی واردات میں مارا گیا، یہی وجہ ہے کہ اسے ’’مرڈر کیپٹل‘‘ بھی قرار دے دیا گیا۔کیا کینیڈا سے احتجاج کیلئے پاکستان آنیوالے مولانا کو کبھی جرات ہوئی کہ وہ قتل کی اس ہولناک شرح کیخلاف ’’وینی بیغ‘‘ میں کوئی دھرنا دیتے؟یا چھوٹا موٹا کوئی لانگ مارچ ہی کرتے؟ ’’شماریات کینیڈا‘‘ کی 2009ء کی ایک رپورٹ کیمطابق یہ اعدادوشمار جرائم کی حقیقی شرح کی عکاسی اس لیے نہیں کرتے کیوںکہ پولیس کو صرف 31فیصد جرائم ہی رپورٹ ہوتے ہیں۔برسوں سے کینیڈا میں رہنے کے باوجود کیا مولانا کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ جرائم رپورٹ ہونے کی شرح بھی سال بسال کم سے کم ہوتی چلی جارہی ہے۔ جس کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 1999ء میں 37 فیصد جبکہ 2004ء میں 34 فیصد جرائم رپورٹ ہوئے تھے۔پنجاب پولیس کو بات بات پر بدمعاش، گلو بٹ اور غنڈا پولیس کی گالی دینے والے مولانا کو کیا اتنا بھی پتہ نہیں کہ کینیڈین سرکار کے اپنے سروے کیمطابق ہی کینیڈا میں جرائم رپورٹ کیے جانے کی شرح میں کمی کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ 59فیصد کینیڈین باشندے سمجھتے ہیں کہ پولیس اُنہیں انصاف نہیں دلواسکتی، اس لیے جرائم رپورٹ کرنے کا کیا فائدہ؟ کینیڈا میں جنسی جرائم بھی کچھ کم نہیں ہیں ،چھ معصوم بچوں پر جنسی تشدد کرنے والا جیمز الفرڈ اب بھی ٹورنٹو کی گلیوں میں آزادانہ گھومتا پھرتا ہے۔ کیا مولانا کی ملاقات پال برنارڈوسے نہیں ہوئی، جس پر تیرہ بچیوں کے ساتھ زیادتی اور چار کے قتل کا جرم ثابت ہوا، لیکن وہ بیس سال کی سزا بھگتنے کے بعد اب آزاد ہے اور مشرقی ٹورنٹو میں دہشت کی علامت سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ ’’سزا‘‘ بھگتنے کے بعد پولیس اس کا مزید کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی۔ کیا کینیڈین مولانا کو کبھی یہ بشارت نہیں ہوئی کہ وہ ’’وینی بیغ‘‘کے معصوم شہریوں کو ایسے ظالم حکمرانوں سے نجات دلانے کی کوشش کرتے، جنہوں نے اس طرح کے نکمے پولیس اہلکار بھرتی کیے جن کی وجہ سے کینیڈا میں مسلسل جرائم پنپ رہے ہیں؟مسجدوں پرحملوں سے لیکر میٹرو اور بس اسٹیشنوں پر مسلمانوں پر تشدد میں روز بروز اضافہ کینیڈا میں ہورہا ہے اور مولانا ’’طاغوتی قوتوں‘‘ کو للکارنے کیلئے یہاں پاکستان میں موجود ہیں۔مولانا کو یہ تو یقینا معلوم ہی ہوگا کہ کینیڈا کی اسلامک کونسل انتباہ کرچکی ہے کہ رواں برس مسلمانوں کیخلاف جرائم اور تشدد میں دوگنا اضافہ ہوا ہے؟ پاکستان میں ہونیوالے ایک سنگین جرم پر قصور جلاکر راکھ کردیا گیا، لیکن کیا مولانا نے کینیڈا میں مسلمانوں کیخلاف سنگین جرائم میں سو فیصد اضافے کیخلاف کوئی ایک آدھ ٹائر وغیرہ جلاکر ہی احتجاج ریکارڈ کرانے کی کوشش کی؟چلیں یہ بھی رہنے دیں اور ذرابرطانوی نشریاتی ادارے کی وہ خبر ہی ملاحظہ کرلیں، جس کے مطابق خود کینیڈین حکومت نے اعتراف کیا کہ جنگی جرائم میں ملوث تیس مجرم کینیڈا میں چھپے ہوئے ہیں، ان مجرموں کا تعلق افغانستان، الجیریا، انگولا، الاسلواڈر، گھانا، گویت مالا، ہیٹی، ہندراس، عراق، نائجیریا، پاکستان، پیرو، ڈیموکریٹک رپبلک آف کانگو، صومالیہ، سری لنکا، سوڈان اور سابق یوگوسلاویہ سے بتایا گیا اور کہا گیا کہ یہ افراد جنگی جرائم یا انسانیت کیخلاف جرائم میں ملوث ہیں۔ کینیڈا کی بارڈر سروسز ایجنسی نے ان مفرور افراد کے نام ویب سائٹ پر شائع کرتے ہوئے عوام سے اپیل کی کہ وہ ان فراد کو تلاش کرنے میں حکومت کی مدد کریں۔کیا مولانا نے انسانیت کیخلاف جرائم میں ملوث اِن تیس افراد کی تلاش کیلئے دوسری جماعتوں کو ساتھ ملاکر کوئی بڑا احتجاج کرنے کا منصوبہ کم از کم اپنے دماغ میں ہی تیار کیا؟
کینیڈیا میں اتنے سنگین جرائم کے باوجود اگر مولانا پاکستان میں موجود ہیں تو پھر اس میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا کہ پاکستان میں انتخابات سے پہلے کوئی بڑا کارزار سجنے والا ہے۔لگتا ہے کہ دھرتی کی مانگ میں لہو کی بوندیں اتارنے کا وقت آچکا ہے اور جلتے لوتھڑوں کی سڑانڈ سے دماغ جل اٹھنے کا لمحہ سر پر آن پہنچا ہے۔ سر بریدہ لاشوں سے اٹھنے والی بساند کے بھبکوں کے ہر سو پھیلنے میں اب زیادہ دیر نہیں رہی۔ لاشوں کو نوچنے کیلئے بھیڑیوں کے غول یونہی تو غراتے نہیں پھرتے، وطن عزیز کے افق پر گدھوں کے جھنڈ کے جھنڈ یونہی تو منڈلاتے نہیں پھررہے!کسی مردار پر اگر اردگرد کے گدھ جھپٹ پڑیں تو اس میں اچنبھے والی کوئی بات نہیں ہوتی لیکن یہ بدیسی کرگس یہاں کیا کررہے ہیں؟ یہ بدیسی کرگس بھی اگر محض لاشوں کے رسیا ہوتے تو اُنہیں اِس قدر دور آنے کی ضرورت نہ پڑتی! اِن بدیسی کرگسوں کو دس ہزار تین سو اکاسی کلومیٹر کی مسافت طے کرکے بار بار پاکستان کا رُخ نہ کرنا پڑتا۔ ہر سال دو سال بعد دیوانہ وار پاکستان دوڑے چلے آنے کا یہ کرگسی شوق تو یہی بتاتا ہے کہ ’’وچوں گل کوئی ہور اے‘‘۔

مصطفی بیگ

مصطفی بیگ

epaper

ای پیپر-دی نیشن