• news
  • image

قصور کی بے قصور ننھی کلی

جن معاشروں میں قانون، انصاف اور میرٹ بڑے بڑے دعووں، بیانات اور وعدوں تک محدود ہو جائیں۔ ایسے معاشرے مجرمانہ و مریضانہ ذہنیت، ظلم و بربریت، انتشار اور وحشت ودرندگی میں اپنے مثال آپ ہوتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں درد انگیز اور شرم ناک دار داتین بلاتعطل جاری رہتی ہیں۔ ایسا ہی ایک دل دہلا دینے والا واقعہ ضلع قصور میں معصوم زینب کے ساتھ پیش آیا۔ ننھی زینب 4 جنوری کو اپنی خالہ کے گھر سے قرآن پاک پڑھنے جارہی تھی کہ کسی نا معلوم وحشی درندے نے اغواء کرلیا۔ 10 جنوری کو زینب کی لاش اسکے گھر کے قریب کچرے کے ڈھیر سے ملی ۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب زینب کے والدین عمرہ کی ادائیگی کیلئے گئے ہوئے تھے ۔ رپورٹ کیمطابق بچی کو زیادتی کے بعد گلا دبا کر قتل کردیا گیا ۔ قصور میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی آٹھ ماہ میں 12 معصوم بچیوں کو جنسی تشدد کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ان تمام واقعات میں سے 8 کے ڈی این اے ٹیسٹ ایک ہی شخص سے ملتے ہیں۔اس لرزہ خیز واقعہ کی خبر عام ہونے کے بعد ہزاروں لوگ زینب کو انصاف دلانے کیلئے سڑکوں پر نکل آئے۔ قصور میں انتظامیہ اور پولیس کیخلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے ۔ زینب کے والدین نے آرمی چیف سے انصاف کی اپیل کردی جو اس بات کا اظہارہے کہ اس معاشرے میں عام آدمی عدم تحفظ کاشکار ہے۔ تاحال اداروں کے سربراہان کی طرف سے اس واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے تمام ضروری اقدامات کئے جاچکے ہیں لیکن اسکے باوجود قاتل کا کچھ پتا نہیں ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قاتل کو آسمان نگل گیا یا زمین کھا گئی ؟ قاتل کن محفوظ ہاتھوں میں ہے کہ جن ہاتھوں تک پہنچتے ہوئے آئین، قانون اور انصاف کے پر جلتے ہیں ؟ ان سولات کے جوابات حاصل کرنے کیلئے اس واقعہ کے بعد عوام کے منتخب نمائندوں اور پنجاب پولیس کے غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ دار رویے کا تجزیہ کرنا ہوگا۔ہر سال 3500 کے قریب بچوں کے ساتھ زیادتی کے جرائم رپورٹ کئے جاتے ہیں تحقیق کے مطابق روزانہ کم و بیش 7 سے 8 بچوں کو جنسی تشدد اور زیادتی کا نشانہ بنا کر انھیں قتل کردیا جاتا ہے ۔ ظالم بچوں کو اغواہ کر تے ہیں انھیں ہوس کا نشانہ بناتے ہیں اور پھر انھیں قریبی کچرے پر پھینک دیتے ہیں ۔ایسی شرمناک وارداتوں میں ضلع قصور پہلے نمبر پر، سرگودھا دوسرے نمبر پر اور لاہور تیسرے نمبر پر ہے۔ اس سے پہلے قصور میں ویڈیو سکینڈل بھی سامنے آچکا ہے لیکن آج تک مجرموں کو سزا نہیں ہوسکی۔حکمران طبقہ کا یہ وطیرہ ہے کہ پہلے عوام کے شدید رد عمل کا انتظار کیا جاتا ہے ۔ اگر مشتعل اور مظلوم عوام ڈنڈے اور پتھر برسائے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچائے تو عوام کے غم و غصہ کو کم کرنے کیلئے جذباتی ایکشن لیا جاتا ہے۔ کمیٹیاں بھی بنادی جاتی ہیں۔ واقعہ کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی بھی تشکیل دے دی جاتی ہے۔ ڈی پی او بھی معطل کردیا جاتا ہے۔ لیکن درندہ صفت قاتل قانون کی گرفت سے ہمیشہ آزاد رہتے ہیں۔

ایسا ہی ردعمل معصوم زینب کے وحشیانہ قتل پر وزیراعلی پنجاب کی طرف سے کیا گیا۔ لیکن 6 دن گزرنے کے باوجود قاتل کا کچھ پتا نہیں۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ آہ و زاری اور املاک کو نقصان پہنچانے کے بعد ابال چند دن میں جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔ ہم کوئی مستقل بنیادوں پر حکمت عملی تیار کرنے اور ظالموں کو قرار واقعی سزا دینے کی بجائے ایک نئے واقعے اور حادثے کا انتظار کرنے لگتے ہیں ۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیںکہ کچرے سے ملنے والی لاش زینب ، لائبہ یا کائنات کی نہیں بلکہ ہم سب کی ہے، قانون اور آئین کی ہے اس واقعہ کے بعد ایک مقتول بچی کے والدین نے نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ علاقے کی پولیس کا رویہ انتہائی شرمناک رہا۔ قصور کے ڈی پی او نے مقتول بچی کے والدین سے پولیس کانسٹیبل کو بچی کی لاش ڈھونڈنے پر 10 ہزار روپے انعام دینے کا مطالبہ بھی کیا ۔25 ہزار رشوت لینے والے ایس ایچ او کو قصور تعینات کر دیا گیا ۔مقتول بچیوں کے والدین نے مزید بتایا کہ پولیس اور مقامی عوامی نمائندے مجرموں اور ظالموں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ مجرموں کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ انصاف کے حصول کیلئے مظاہرین پر پولیس کی جانب سے سیدھی گولیاں بھی چلا کر گھر کا واحد کفیل نوجوان شعیب اسلم اور محمد علی موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ۔اپنے آپ کو اور مخصوص مافیاو اشرفیہ کو بچانے کیلئے فرضی لوگوں کو پولیس موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے ۔ ہر سال اربوں روپے حکمران طبقہ کو تحفظ فراہم کرنے میں اور پروٹوکول میں خرچ کیے جاتے ہیںجبکہ عوام میں زندگی کے تحفظ اور عزت آبروکی قدروں سے فیضیاب ہونے کا امکان ختم ہوتا جارہا ہے ۔یہ کولیٹرل بے بسی ہے۔ یہ حکومتی مشینری اس نظام اور انٹیلی جنس شیئرنگ کی ناکامی ہے۔ حکومتی نمائندوں کا غیر سنجیدہ رویہ ، رعونت اور ظلم کی آبیاری نے عوام کو عدم اعتماد اور عدم تحفظ میں مبتلا کردیا ہے انتظامی ، سیاسی، سماجی، اور قانونی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ "ـپاکستان پینل کوڈ "میں "چائلڈ پورنو گرافی " کیلئے کوئی قانون نہیں ڈیڑھ صدی پہلے بنایا گیا قانون ترمیم چاہتا ہے ۔ عوام سڑکوں کے جال، اونج ٹرین اور میٹرو بس نہیں بلکہ اپنے جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ چاہتے ہیں۔ ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے عوام کے جان و مال کے تحفظ کیلئے مستقل بنیادوں پر حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی ۔ جوابدہی یا سزا دینے کا جب کوئی شفاف نظام نہیں ہوگا تو زینب جیسے شدید جرائم کا خاتمہ کیونکر ممکن ہو سکتا ہے؟ والدین کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت اور حفاظت پر فوکس کریں ۔انھیں اچھے اور برے کا شعور دیں ۔ انہیں کبھی تنہانہ چھوڑیں۔ انہیں اعتماد دیا جائے کہ وہ اپنے والدین کے علاوہ کسی پر اعتبار نہ کریں۔ بنیادی حقوق سے محروم اس غیر تربیت یافتہ معاشرے میں انسانی روپ میں موجود بھیڑیوں سے بچوں کو تحفظ فراہم کرنا سب کا اخلاقی اور قومی فریضہ ہے۔!

epaper

ای پیپر-دی نیشن