سب لوگ ایک ساتھ کنٹینرپر کیوں کھڑے نہیں ہو سکے
سیر کرنے کا مزہ بھی مال روڈ پر آتا ہے۔ جب ہم گورنمنٹ کالج لاہور میں تھے۔ نیو ہوسٹل میں رہتے تھے۔ دو کام ہم ضرور کرتے تھے۔ داتا دربار قریب تھا وہاں حاضر ہوتے۔ تقریباً ہر روز کا یہ معمول تھا اور ایک چکر مال روڈ کا لگاتے۔ یہاں پیدل چلنے کا بڑا مزہ آتا۔ اب بھی اس سڑک پر لوگ چلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ورنہ چلتے پھرنے کا رواج ختم ہو گیا ہے۔ بہت کم لوگ پیدل چلتے ہوئے نظر آئیں گے۔ اب ہر شخص گاڑی میں ہو گا یا اس کے پاس موٹر سائیکل ہو گی۔ سائیکل بھی ختم ہو گیا۔
سائیکل بہترین سواری ہے۔ اس پر بیٹھنے والے کی ورزش ہوتی ہے۔ پالوشن یعنی آلودگی نہیں ہوتی۔ نہ شور نہ دھواں۔ کبھی کبھی پورا پورا خاندان موٹر سائیکل پر سوار ہوتا ہے اور بہت مزے سے بیٹھے بیٹھے جہاں جانا ہوتا ہے چلے جاتے ہیں۔
پہلے 17 جنوری کے اجتماع کے لیے کئی باتیں بنائی گئیں۔ عمران خان آصف زرداری کے ساتھ ایک کنٹینر پر نہیں کھڑا ہو گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ زرداری صاحب پانچ سال تک پاکستان کے صدر رہے۔ عمران خان تب پاکستان میں تھے۔ انہوں نے کبھی کوئی بات نہ کی۔ زرداری صاحب نے بہت وقار سے اپنی مدت پوری کی۔ کچھ تو اپنے ملک کے سابق صدر کے لیے عزت و احترام کا تقاضا بھی ہے کہ ان سے اختلاف کے باوجود ان کی شخصیت کا اعتراف کیا جائے۔ ان کی عزت کا خاص خیال رکھا جائے۔ میرے خیال میں وہ پاکستان کے سب سے کامیاب صدر تھے۔ یہ جمہوری نظام کی کامیابی کی دلیل بھی ہے۔
کئی موقعوں پر اپوزیشن اکٹھی ہوتی رہی ہے ۔ 17 جنوری کا احتجاج بہت اہم ہے۔ لاہور شہر میں 14 لوگ قتل ہوئے جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ اور یہ سانحہ سیدھی فائرنگ کے نتیجے میں ہوا۔ یہ کس طرح کا مقابلہ تھا کہ اس میں کسی پولیس والے کو زخم تک نہ آیا۔ فوری طور پر اس کی تلافی ہونا چاہیے تھی۔
یہاں آج کے دن ق لیگ کے چودھری شجاعت کو بھی دعوت دینا چاہیے تھی۔ منظور وٹو آصف زرداری کے ساتھ ساتھ نظر آئے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت بھی ان کے اردگرد تھی۔
پھر یہ خبر آئی اور قادری صاحب کی زبانی آئی کہ سب لیڈر عوام سے خطاب کریں گے۔ احمد رضا قصوری کے والد کے قتل میں عظیم لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ بھٹو صاحب قصوری صاحب کے قتل کے وقت ملتان میں تھے۔ جبکہ ماڈل ٹاﺅن ابھی تک یہ پتہ نہیں چلا کہ سانحہ کا سیدھی فائرنگ کا حکم کس نے دیا تھا۔ کیا پولیس والوں نے اپنے طور پر فیصلہ کر لیا۔
جس مقتول کے قاتل کا معلوم نہ ہوسکے تو اس کی ذمہ داری کس پر آئے گی۔ یہ بات کسی ٹی وی ٹاک شو میں ایک دوست نے کی۔
حیرت ہے کہ جب ایجنڈا ایک ہے، مطالبہ ایک ہے، سب لوگ اس پر متفق ہیں تو وہ ایک ساتھ ایک کنٹینر پر کیوں کھڑے نہیں ہو سکتے۔ پیپلز پارٹی نے بڑے جذبے سے احتجاج میں شرکت کی۔ خورشید شاہ، قمرالزمان کائرہ، شوکت بسرا، لطیف کھوسہ، پرویز اشرف، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان۔
ایک بہت مبارک نام والا میگزین ”حجاز“ ملا ہے۔ اس کے بانی بہت بڑی فلاحی شخصیت حاجی انعام الٰہی اثر مرحوم ہیں۔ جنہیں حکومت پاکستان نے ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں تمغہ امتیاز سے نوازا تھا۔ حجاز کی چیف ایڈیٹر مسرت قیوم ہیں جو نوائے وقت کی قابل احترام کالم نگار ہیں۔ معاونین میں تجمل گورمانی ہیں جو ایک معروف ادیب ہیں۔ رسالے میں حاجی انعام الٰہی اثر کے لیے ”لاہور کا عبدالستار ایدھی“ کا لقب شامل ہے۔ مجھے اس پر اعتراض ہے کہ حاجی صاحب کا اپنا مقام ہے اور عبدالستار ایدھی کا اپنا مقام ہے۔ رسالے میں ایک تحریر ”انجیر کے فوائد“ پڑھی اور میرا جی چاہا کہ انجیر کھائی جائے۔ انجیر کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے۔ یہ ایک خوبصورت اور مفید رسالہ ہے۔
آغا جرار نے مجھے اپنا شعری مجموعہ ”متاع سخن“ بھجوایا ہے۔ وہ ایک اچھا نوجوان شاعر ہے۔ اس کے پہلے شعری مجموعے کا نام ”تمہاری یادیں“ ہے۔ اس کا دیباچہ معروف شاعر حسن عباسی نے لکھا ہے۔
سورج تری یادوں کا چمکتا ہے کچھ ایسے
دامن مجھے اشکوں سے بھگونے نہیں دیتا
جس شخص پہ اتری ہیں مرے پیار کی کرنیں
وہ مجھ کو اندھیروں میں بھی کھونے دیتا
آنکھوں سے برستا ہوا بادل مجھے جرار
دامن کا کوئی داغ بھی دھونے نہیں دیتا
ا