قصور کا المناک حادثہ…… معاشرتی رویہ
قصور میں 7 سالہ بچی زینب درندگی اور قتل کیے جانے کے دلخراش واقعہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ہی نہیں بلکہ ہمارے معاشرہ کے کردارپر سوالیہ نشان ہے اور ثابت کرتا ہے کہ ماضی میں خواتین ، بچیوں اور بچوں کے ساتھ ہونے والے درندگی کے ایسے واقعات پر ذمہ داروں کے خلاف سخت ترین کاروائی نہ کیے جانے کے باعث آج درندہ صفت عناصرجگہ جگہ گھنائونے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں ہماری حکومتیں اور پولیس فورس جو کہ عوام کی جان ومال عزت وآبرو کی حفاظت کی ذمہ دار ہے وہ مسلسل بے حسی کا مظاہرہ کر رہی ہے محسوس ہوتا ہے کہ اپنا معاشرتی رویہ اور طریقہ کارتبدیل کرنے کی ضرورت ہے قصور میں پیش آنے والے اس واقعہ میں انتظامیہ پولیس ہی نہیں بلکہ نظام عدل کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا ایک سال کے اندر درجنوں کمسن بچوں اور بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ۔ دوسال قبل بھی سینکڑوں بچوں اور بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد ان کی ویڈیو بنا کر اندرون اور بیرون ممالک فروخت کی گئی اور ان کے لواحقین کو بلیک میل کرکے رقم حاصل کی گئی حکومت نے عبرتناک سزا دینے کا اعلان کیا مگر ہمارے انتظامی اور عدالتی نظام سے کچھ نہ ہو سکا اور کیس دفتر داخل یا ختم کر دیا گیا۔ معصوم زینت کیس میں بھی پولیس کا ابتدائی رویہ قابل مذمت اور شرمناک رہا۔ جب پریشر بڑھا تو سڑکوں پر احتجاج کے لیے لوگ نکلے تو وزیر اعلی پنجاب شہباز بھی گھر پہنچے اور JITبنائی گئی ۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی نوٹس لیا آرمی چیف نے بھی اپنے اداروں سے کہا کہ انتظامیہ کے ساتھ تعاون کو یقینی بنائیں ۔ افسوس کتنی زینب پریشر اور شرم کی وجہ سے گمنام ہو جاتی ہیں ۔ اور میڈیا میں نہیں آتیں اگر ہمارا سسٹم صحیح ہوتا انتظامیہ اور پولیس اور عدالتیں اپنا درست کردار ادا کرتیں ہر واقعے پر کاروائی ہوتی ، سزا اور جزا کا عمل جاری رہتا تو یہ صورت حال نہ ہوتی ۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دور میں معصوم بچے سے زیادتی کے واقعہ پر جب مجرموں کو بیچ چوراہے لٹکایا گیا تو یہ منظر پوری قوم نے دیکھا کئی سالوں تک ایسے واقعات رونما نہ ہوئے اگر اس وقت بھی مستقل قوانین بناکر سخت سزائیں دی جاتیں تو ایسے دلخراش واقعات رونما نہ ہوتے ۔ جنرل مشرف کے ابتدائی دور میں راوی روڈ لاہور میں ایک بڑا واقعہ منظر عام پر آیا تھا جس میں ایک شخص نے 100 بچوں سے بدفعلی کے بعد بذریعہ تیزاب قتل کرکے پانی میں بہانے کا اعتراف کیا تھا اس واقعہ کو ملکی وغیر ملکی میڈیا نے نمایاں کیا تھا۔ ملزم گرفتار ہوا اور مزید کرداروں کوگرفتار کرنے کی بجائے اس ملزم کو جیل میں ہی قتل کر دیا گیا اس بدنام زمانہ اور خوفناک کیس کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا گیا۔ امن وامان اور جرائم کے خاتمے کے لیے پولیس کی کارکردگی قابل افسوس ہے وسائل کی کمی اپنی جگہ لیکن بے حسی کا عنصر زیادہ نمایاں ہے پولیس اور انتظامیہ کے ساتھ ساتھ معاشرے کا اصل پہلو بچے اور ان کے لواحقین کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اندر کی خامیوں کو دور کرکے اپنے گردو پیش نظر رکھنی ہو گی اور بچوں کو بھی آگاہی دینا ہوگی ۔ صرف غیر لوگوں سے ہی نہیں بلکہ اپنے قریبی عزیزوں دوستوں سے چوکنا رہنے کی تربیت دینا ہوگی اور بتانا ہو گا کہ وہ ایک حد سے آگے کسی سے دوستی نہ کریں بچوں کو کھل کر بتائیں کہ اس تعلق اور دوستی سے عزت کے ساتھ ساتھ جان بھی جا سکتی ہے ۔ موجودہ دور میں موبائل فون ، فیس بک اور دیگر ایجادات بھی معاشرہ بالخصوص بچوں اور بچیوں کی تباہی کا باعث ہے جس ملک میں ہر دو گھنٹے پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنیں تین چار دن بعد اجتماعی زیادتی کا واقعہ ہو 35فیصد آباد تو کم سن افراد پر مشتمل ہے 18سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔
کمسن لڑکیوں کے جنسی تشدد کے واقعات میں ان کے قریبی عزیز ، ہمسائے اور جاننے والے افراد ملوث ہوتے ہیں اسی طرح لڑکوں کی زیادتی میں اساتذہ اور قریبی تعلق والے افراد شامل ہوتے ہیں جس کے ساتھ یا جس گھر میں واقعہ ہوتا ہے اس پر تو قیامت ٹوٹ پڑتی ہے لیکن لوگ وقتی افسوس کرتے ہیں لیکن حکومت بھی احتجاج پر کان دھرتی ہے ۔ مستقل منصوبہ بندی او ر قانون سازی سے پہلو تہی کی جاتی ہے ہمارا معاشرہ نہایت گراوٹ کا شکار ہے قانون میں سقم موجود ہے ۔ بنیادی وجہ دین اسلام سے دوری ، طلوع اسلام سے پہلے خواتین کی حیثیت نہ ہونے کے برابر تھی رسالت مآب ﷺ پوری کائنات کے لیے رحمت بن کر آئے خواتین کو برابری کے حقوق دیئے ، اور خواتین کو وراثت میں بھی حصہ دار ٹھہرایا سماجی اور معاشی معاملات میںاسلام عورت سے مشاورت اور ان سے نرمی اور خوش اخلاقی سے پیش آنے کا درس دیتا ہے لیکن اب معاشرہ زوال کا شکار ہے عورتوں اور بچوں کا ہر سطح پراستحصال کیا جاتا ہے جائیداد سے محروم کرنا ، کم عمری اور وٹے سٹے کی شادی ، غیرت کے نام پر قتل ، تیزاب پھینک کر زندہ درگور کر دینا مائیں ، بہنیں بیٹیاں ظلم کا شکار ہیں ، وہی معاشرہ کامیاب ہوتا ہے جہاں خواتین کے حقوق کی پاسداری کی جائے حکومتی سطح پر پنجاب حکومت نے کچھ اقدامات کیے ہیں ۔ جیسے پنجاب پروٹیکشن آف وویمن وائلنس ایکٹ 2016کے تحت صوبے کے چھتیس اضلاع میں خواتین کے لیے سینٹر قائم کیے ہیں جن میں زیادتی کی صورت میں ایک ہی جگہ ایف آئی آر کاٹنا ، علاج ، قانونی شہادت ، ماہر نفسیات ، معالج ، سرجری ۔جج اور عدالت کی سب سہولتیں اس سینٹر میں مہیا کی اور اقدامات کیے جائینگے ۔ حکومت پنجاب نے اس پورے نظام کو قانونی شکل دے دی ہے تاکہ تشدد کی شکار خواتین کو مختلف محکموں میں دھکے کھانے نہ پڑیں ان سب باتوں کے ساتھ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا باشعور لوگوں کی ذمہ داری بہت زیادہ بنتی ہے جن میں سیاسی اور سماجی جماعتوں کو بھی پوائنٹس سکورنگ کرنے کی بجائے حکومت کا ساتھ دینا چاہیے کیا پاکستان کے دیگر صوبوں میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں ہر ایک کو اپنے حصے کا حساب دنیا اور آخرت میں دینا ہوگا والدین کو اپنے بچوں کو پورا وقت دینا چاہیے اور ہر موضوع پر گفتگو کرنی چاہیے بچوں کو بتانا چاہیے کہ بچائو کے لیے کیسے مزاحمت کی جائے اگر معصوم بچے تھوڑی سی بھی مزاحمت کر لیں ، ساتھ جانے سے گریز کریں اور ڈرنے کی بجائے گھر آکر ساری بات اپنے والدین کو سچ بتائیں تو کافی حد تک سدباب ہو سکتا ہے ۔