قصور میں معصوم بچیوں کیساتھ وحشیانہ درندگی!
ویسے تو ہمارے اشرافیہ نام نہاد ’’ترقی‘‘ کے راگ الاپتے نہیں تھکتے۔ یہ ہے وہ ’’ترقی‘‘ کہ ہم معصوم ننھی کلیوں کو تحفظ بھی فراہم نہیں کر سکے۔ جن کو کھلنے سے قبل ہی درندے مسل دیتے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں بھی شاید بچیوں کے ساتھ وہ مظالم نہیں ہوتے تھے جو آج چودہ سو سال بعد ہمارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دیکھنے اور سننے کو مل رہے ہیں۔ اس نام نہاد ’’ترقی‘‘ کا کیا فائدہ جس میں معصوم بیٹیوں کی عزت اور جان محفوظ نہیں۔ حکومت کی ساری مشینری مل کر بھی ان درندوں کو گرفتار نہیں کر سکی۔ کیا یہ کام بھی فوج کو کرنا پڑے گا؟ قصور میں پیدا ہونے والی زینب اور اس سے قبل موت اور درندگی کا شکار ہونے والی دیگر بچیوں کا قصور محض یہ تھا کہ وہ قصور میں اپنے بدنصیب والدین کے گھروں میں پیدا ہوئیں۔ قصور تو صوفی بزرگ حضرت بابا بلھے شاہ کا شہر ہے جنہوں نے لوگوں کو محبت، امن، بھائی چارے کا درس دیا تھا۔ نہیں قصور حکومت وقت کا ہے۔ قصور متعلقہ تھانے میں تعینات ایس ایچ او اور دیگر پولیس ملازمین کا ہے۔ قصور متعلقہ آئی جی کا ہے جو کروڑوں روپے عوام کے دئیے ہوئے ٹیکسوں سے تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔ ان کی جان و مال کے تحفظ کے ضامن ہیں مگر وہ بھی ابھی تک ٹال مٹول سے کام لے کر بے چارگی اور بے بسی کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایک کام بس جو پولیس آسانی سے کر سکتی ہے اور وہ کر رہی ہے کہ احتجاج کرنے والوں پر گولیاں برسائو ان کو مارو تاکہ لوگ ظلم کے خلاف آواز بھی بلند نہ کر سکیں۔ کہنے کو تو ہم 1947ء میں آزاد ہو گئے تھے مگر ہم آج بھی اس حد تک مقید ہیں کہ ہماری کوئی زینب بیٹی اپنے گھر سے دو منٹ کی مسافت پر دوسرے گھر میں قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرنے بھی نہیں جا سکتی اگر وہ قرآن پاک کی تعلیم کے حصول کے لئے جاتی ہے تو کوئی درندے اسے اٹھا لیتے ہیں۔ خاکم بدہن اس معصوم بیٹی کے ساتھ وہ ظلم اس مسلمان معاشرے اور ملک پاکستان میں ہوتا ہے جس کا نام لینے سے قبل انسان موت کو ترجیح دیتا ہے اور پھر معصوم قرآن کی قاری زینب کو قتل کرکے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا جاتا ہے۔ اس علاقے کے محافظ ڈی پی او کا یہ حال ہے کہ کوڑے کے ڈھیر کے پاس یہ کہہ کر گاڑی سے نیچے اترنا پسند نہیں کرتا کہ ’’بدبو‘‘ آ رہی ہے اور گھر والوں کو کہا جاتا ہے کہ لاش ڈھونڈنے والے کو 10 ہزار انعام دو۔ ویسے تو متعلقہ ڈی پی او کی اپنی اولاد بھی ہو گی۔ ڈی پی او صاحبان کا رہن سہن بھی شاہانہ ہی ہوتا ہے مگر اس قدر بے حسی؟ لاش ڈھونڈنا اور قاتل کو پکڑنا تو پولیس کا کام تھا۔ بدنصیبی تو یہ ہے کہ ایسے واقعات ہوتے تھے ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے کیونکہ سزائیں نہیں دی جاتیں۔ پولیس کی نااہلی آڑے آتی ہے اگر دو چار مجرموں کو ہی سرعام چوراہوں میں سزائیں دی جائیں تو بخدا ظالموں کو عبرت ملے اور مظلوموں کی دادرسی بھی ہو۔ چند ماہ قبل مظفرگڑھ میں ایک بیٹی کے ساتھ جب ایسا ہی سلوک ہوا تو پولیس نے خود ہی ملزم کو بری کر دیا تھا۔ ملزم نے اسی لڑکی کے گھر مٹھائی بھیجی تھی یہ بتانے کے لئے کہ میں تو پھر بھی چھوٹ کر آ گیا ہوں تم میرا کیا بگاڑ سکی ہو تو بیٹی نے تھانے کے سامنے جا کر خودسوزی کی کوشش کی تھی۔ ہمارے ہاں انصاف کا یہ عالم ہے کہ ایک پورا تھانہ پورے ضلع کی عوام کو اگر مار دے تو اس تھانے کو جو سزا دی جائے گی وہ ہو گی ’’معطلی‘‘ بس اور معطلی کو تو سرکاری تعطیلات کے زمرے میں لیا جاتا ہے چند ہی دنوں بعد انہیں بحال بھی کر دیا جاتا ہے اور سابقہ تنخواہ بھی دی جاتی ہے۔ آج کل ہر چینل پر ہر سیاسی پارٹی زینب کے نام پر سیاست کرتی نظر آ رہی ہے۔ کوئی معصوم زینب و دیگر بچیاں جو درندگی کی بھینٹ چڑھی ہیں ان کی مائوں اور باپوں سے جا کر پوچھے تو سہی کہ یہ صدمہ کتنا عظیم اور گہرا ہے جو شاید والدین کی اپنی اموات تک بھی ختم نہیں ہو سکے گا۔ سوال یہ ہے کہ یہ درندگی کیسے روکی جائے۔ پہلا حل تو یہ ہے کہ جس علاقے میں ایسا واقعہ ہو اس علاقے کے ایس ایچ او کو صرف معطل نہیں بلکہ ملازمت سے ہمیشہ کے لئے فارغ کر دیا جائے۔ جو سرکاری اہلکار یا سرکار عوام کی معصوم بچیوں کی ناموس اور جان کی حفاظت نہ کر سکے اسے تو خود بخود اپنی ناکامی تسلیم کرکے علیحدہ ہو جانا چاہئے۔ زینب سمیت 12 بچیوں کو قتل کیا جا چکا ہے مگر اس متعلقہ تھانے کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا؟ اگر ہمارے حکمران اللہ تعالیٰ کو جوابدہی پر یقین رکھتے ہیں تو انہیں ہر زینب کو اپنی بیٹی ہی سمجھنا چاہئے اور اپنی بیٹی کی مانند ہی عوام کی بیٹیوں کی جان اور عزت کی حفاظت کرنا چاہئے۔ حضرت عمر فاروقؓ کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ اگر فرات کے کنارے بکری کا بچہ بھی بھوکا مر گیا تو روز قیامت مجھ سے سوال کیا جائے گا یہی حقیقت ہے۔ اسلامی معاشرے میں حکمران دنیا میں بھی عوام کو جوابدہ ہیں اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو کر جوابدہی پر مکمل ایمان و یقین رکھتے ہیں۔ بخدا یہ اقتدار، یہ عہدے اور اختیارات کا ملنا کسی مسلمان کیلئے عیاشی کے لئے نہیں بلکہ بہت بڑی آزمائش کے لئے ہوتے ہیں۔ ایک دن تو سب نے اپنے اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔ بہرحال حکومت وقت کو معصوم بچیوں کے ساتھ ہونے والی درندگی کے خاتمے کے لئے فوراً عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے اور سزائیں ایسی دینا ہوں گی کہ ایک ماہ کے اندر فیصلہ ہو اور ایسے مجرموں کو بلاکسی رعائت کے شہروں کے چوراہوں میں سزائیں دینا ہوں گی ورنہ یہ وحشیانہ کھیل جاری رہے گا۔ حیرت ہے ایک اسلامی ملک میں معصوم بچیوں کے ساتھ وحشیانہ درندگی! ذمہ دار کون؟