مزید ساتھ نہیں چل سکتے: جان سلیوان، الزامات کی بجائے افغانستان پر توجہ دیں: ملیحہ لودھی، سلامتی کونسل میں پاکستان، امریکہ آمنے سامنے
نیویارک( این این آئی+ آن لائن+ آئی این پی) اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران پاکستان اور امریکہ کے حکام کے درمیان تند و تیز جملوں کا تبادلہ ہوا ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں افغانستان کی صورت حال پر ایک خصوصی اجلاس ہوا۔ جس میں افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک کے درمیان تعلقات اور رابطوں کے متعلق معاملات زیر غور آئے۔ اجلاس کے دوران پاکستانی اور امریکی حکام کے درمیان اس وقت تند و تیز جملوں کا تبادلہ ہوا جب امریکی نائب وزیر خارجہ جان سلیوان نے کہا کہ اب امریکہ پاکستان کے ساتھ مزید نہیں چل سکتا کیونکہ اْس نے دہشت گرد تنظیموں کے ارکان کو پناہ دے رکھی ہے۔ پاکستان کو افغان تنازعے کے حل کی کوششوں میں بھرپور طریقے سے شریک ہونا چاہیے۔ افغان سکیورٹی فورسز کا طالبان کیلئے واضح پیغام یہ ہے کہ اس تنازعے کا حل صرف اور صرف مذاکرات سے ہی ممکن ہے اور وہ کسی صورت بھی مسلح کارروائیوں سے جنگ نہیں جیت سکتے۔امریکی نائب وزیر خارجہ کے اس موقف کے جواب میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے کہا کہ گزشتہ 17 برس سے جاری افغان تنازع نے واضح کردیا ہے کہ جنگی حالات کے ساتھ نہ تو افغان حکومت کو کامیابی حاصل ہو سکتی ہے اور نہ ہی طالبان فتح یاب ہو سکتے ہیں۔ سفارتی مکالمت کے ساتھ ساتھ جنگی کارروائیوں کی حکمت عملی صرف اور صرف تشدد میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ صرف لفاظی سے معاملات حل نہیں ہوتے اور اس کے لیے مؤثر اور عملی بات چیت کی بھی ضرورت ہے۔اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب نے کہا کہ افغانستان اور اْس کے اتحادیوں، خاص طور پر امریکا اس تنازعے کا الزام کسی اور کے سر دھرنے سے پہلے افغانستان کے اندرونی چیلنجز پر توجہ دے۔ وہ جو تصور کرتے ہیں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں افغانستان سے باہر قائم ہیں، ان کا حقیقت سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔آن لائن+ آئی این پی کے مطابق اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے کہا کہ مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کی بات کرنے والا بھارت اپنے گریبان میں جھانکے اور کلبھوشن کی گرفتاری پاکستان میں بھارتی دہشتگردی کا کھلا ثبوت ہے۔انہوں نے کہا کہ 17 برس کی تاریخ بتاتی ہے کہ افغانستان میں طاقت سے کام نہیں چلے گا، محفوظ پناہ گاہوں کی موجودگی، منشیات سے آمدن، دہشتگردوں کوبیرونی مدد کی ضرورت ہی نہیں۔ افغانستان کا 40 فیصد حصہ کابل کے کنٹرول میں نہیں۔ اس صورت میں باہرسے تخریب کاری کی کیا ضرورت ہے اورکابل، اس کے پارٹنر بشمول واشنگٹن الزام تراشی کے بجائے افغانستان میں درپیش چیلنجز پر توجہ دیں۔ انہوں نے بھارت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ دہشتگردی کا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کی بات کرنے والا بھارت اپنے گریبان میں جھانکے، کلبھوشن کی گرفتاری بھارت کی پاکستان میں تخریب کاری کا کھلا ثبوت ہے۔ اقوام متحدہ میں بھارتی مندوب سید اکبرالدین نے پاکستان پر بھارت اور افغانستان کوعدم استحکام سے دوچارکرنے اور دہشت گردی کا بے بنیاد الزام لگایا تھا۔ ملیحہ لودھی نے مزید کہا کہ یہ سوچنا خام خیالی ہے کہ طاقت اور دباؤکی حکمت عملی افغانستان میں کام کرجائے گی۔ دہشتگردوں کی پناہ گاہیں افغانستان سے باہرتصورکرنے والے حقائق کاجائزہ لیں، جب کہ پاکستان طالبان پر زور دیتا ہے کہ تشدد کا راستہ چھوڑ کر مذاکرات میں شامل ہوجائیں۔ امریکی معاون وزیر خارجہ جان سلیوان نے افغانستان کے معاملے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کو بتایا ہمیں مل کر طالبان کو تنہا کرنا ہوگا۔ نئی حکمت عملی کے تحت افغانستان میں مزید فوجی تعینات کیے جائیں گے جب کہ دہشت گردی کی پشت پناہی سے روکنے کے لیے ہمسایہ ملک، پاکستان پر دباؤ بڑھایا جائے گا۔سلیوان نے کونسل کو بتایا ہم پاکستان کے ساتھ پیوستگی اور مؤثر طور پر کام کرنے کے خواہاں ہیں۔ لیکن، اگر حالات جوں کے توں رہے تو کامیابی حاصل نہیں ہوگی، یوں کہ ملک کی سرحدوں کے اندر دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہیں ہوں، جنھیں جاری رکھنے کی اجازت دی جاتی رہے۔