ترکی کا شامی علاقے عفرین میں امریکی حمایت یافتہ کردباغیوں داعش کیخلاف آپریشن
انقرہ/ واشنگٹن (آئی این پی+ اے ایف پی + بی بی سی) ترک فوج نے شام کے علاقے عفرین میں امریکی حمایت یافتہ کرد باغیوں‘ داعش کے خلاف آپریشن شروع کردیا، ترک فوج کی جانب سے عفرین میں باغیوں کے ٹھکانوں پر زمینی اور فضائی حملے کئے گئے، دوسری جانب امریکہ نے ترک فوج کی کارروائی کی شدید مذت کی ہے، غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی حکومت نے عفرین میں ترک فوج کی کارروائی کو شام میں عدم استحکام کی سازش قرار دیا ہے، واشنگٹن میں امریکی حکام نے ترک فوج کی شام میں مداخلت کو مسترد کر دیا گیا۔ دریں اثناء روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا ہے کہ شمالی عفرین میں کفر جنہ اور اور اطراف میں موجود روسی فوج کو وہاں سے نہیں نکالا گیا۔ ترک فوج کے ٹینک اور بڑی تعداد میں بکتر بند گاڑیاں شام کے اندر داخل ہو گئے ہیں۔ ترک فوج کرد پیپلز پروٹیکشن یونٹس کے جنگجوئوں کو نشانہ بنا رہی ہے‘ ٹی وی پر تقریر کرتے اردگان نے کہا اس کے بعد دوسری کارروائی ہوگی، مرحلہ وار دہشتگردوں کے ٹھکانے تباہ کریں گے، ترجمان حزب اللہ نے کہا شام میں فوج رکھنے کا امریکن فیصلہ اس ملک پر قبضہ کرنے کی کوشش ہے۔ ترک نیوز ایجنسی کے مطابق 108 اہداف کو نشانہ بنایا‘ مزید فضائی حملے کئے گئے ہیں متعدد دہشتگرد ہلاک ہو گئے۔ کرک وزیر خارجہ نے امریکی ہم منصب کو فون کیا جبکہ ترک آرمی چیف جنرل ایکر نے امریکی اور روسی ہم منصبوں کو صورتحال سے آگاہ کیا۔ روس نے شام کے سرحدی علاقے میں ترک فوجی آپریشن پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ فریقین سے تحمل کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ترکی کی فوج کا کہنا ہے کہ اس کے جنگی طیاروں نے شام کے شمال میں کالعدم کردستان ورکرز پارٹی سے منسلک کرد ملیشیا کے ٹھکانوں پر فضائی حملے شروع کر دئیے ہیں۔ ترکی عفرین سے کرد جنگجوؤں کا انخلا چاہتا ہے 2012 سے کردوں کے کنٹرول میں ہے۔ ادھر شام نے ترکی کی جانب سے کسی بھی قسم کی کارروائی پر ترکی کے طیاروں کو مار گرانے کی دھمکی دی تھی۔ ادھر وائی پی جی کا کہنا ہے کہ عفرین میں رات بھر میں 70 گولے داغے گئے۔ عفرین پر کی جانے والی گولہ باری کے بعد شہری محفوظ پناہ تلاش کرتے رہے۔